ہم نہ کہتے تھے کہ جو بجٹ پيش کيا گيا ہے وہ مني بجٹ ہے اور اصل بجٹ پورا سال آتے رہيں گے۔ کل وہي ہوا کہ حکومت نے مني بجٹ کے ساتھ کئي فنانس بل بھي منظور کرالۓ اور اس طرح عوام کو اندھيرے ميں رکھنے کي کوشش کي۔ ارکانِ اسمبلي نے اپني مراعات میں اضافہ بھي چپکے سے کر ليا ااور اسي طرح کي مزيد پندرہ تراميم بھي بجٹ ميں شامل کرکے بجٹ منظور کرليا۔ مزے کي بات يہ ہے کہ حزبِ اختلاف کي پچاسي تراميم کو کسي غور کے قابل بھي نہيں سمجھا اور انہيں سرے سے ہي مسترد کر ديا۔

اچھا ہوتا اگر حکومت ارکانِ اسمبلي کي مراعات کا اعلان بھي بجٹ تقرير ميں کرتي مگر جيسا کہ ہم پہلے کہ چکے ہيں حکومت ميں اتنا دم ہي نہيں ہے کہ وہ اس طرح کے اعلانات سرِ عام کرسکے۔ پھر چونکہ حزبِ اختلاف بھي اس عمل ميں راضي تھي اسلۓ ان کي طرف سے بھي کوئي احتجاج نہيں ہوا۔

ابھي ديکھتے رہيۓ آگے کتنے بجٹ پيش ہوتے ہيں جن ميں اشياۓ صرف کي قيمتوں کا تعين ايک ايک کرکے کيا جاۓ گا۔

حکومت نے قيمتوں کے کنٹورل کيلۓ مجسٹريٹ مقرر کرنے کا بل بھي پاس کيا ہے جس کا بجٹ سے کوئي تعلق نہيں تھا مگر اسے بھي بجٹ کا حصہ بنا ديا گيا۔ يہ کام بھي حکومت کي عدم دلچسپي کي وجہ سے ادھورا رہ جاۓ گا سواۓ سفارش پر بھرتي کۓ گۓ مجسٹريٹوں کي عياشي اور رشوت کے ايک اور طريقے کي شروعات کے۔

اے اہلِ حکومت ڈرو اس روز سے جس دن عوام جاگ پڑيں گے اور پھر تمہاري تقدير کے فيصلے بھي بجٹ کي منظوري ميں شامل ہوجائيں گے۔