پنجاب یونیورسٹی کے بی اے بی ایس سی کے نتائج کے اعلان کیمطابق تمام اعلی پوزیشنیں طالبات نے حاصل کر لیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے تعلیم میں زیادہ تر طالبات نے برتری قائم کر رکھی ہے اور وہ بھی باپردہ طالبات۔ لگتا ہے سیل فون، انٹرنیٹ اور کیبل نے طلبا کے زندگی گزارنے کا ڈھنگ تبدیل کر دیا ہے۔ اب وہ پڑھائی اور کھیلوں کی بجائے ایڈوانسڈ میڈیا کے جھمیلوں میں پڑ کر اپنا وقت ضائع کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیم میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر پا رہے۔babscresults
نتائج کے مطابق سرکاری کالجوں کے نتائج بہت خراب رہے ہیں۔ کچھ کے نتائج تو زیرو پرسینٹ بھی ہیں۔ اوورآل نتائج کا تناسب وہی پرانا یعنی ستائیس فیصد۔ ہمیں یاد ہے یہی تناست ہمارے دور میں بھی ہوا کرتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آبادی اور تعلیمی اداروں میں اضافے کے باوجود تعلیمی معیار میں کوئی فرق نہیں آیا۔
شہباز شریف نے امتیازی پوزیشن لینے والی طالبات کو اعلی تعلیم کیلیے باہر بھیجنے کی پیش کش کی ہے امید ہے وہ اس کیساتھ یہ شرط بھی عائد کریں گے کہ تمام لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آ کر ملک کی خدمت کریں گی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شہباز شریف کی یہ پیش کش ذہین افراد کے ملک چھوڑنے کا ایک اور ذریعہ بن جائے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی نتائج پر اثر انداز ہوئی ہو گی کیونکہ پچھلے کچھ عرصہ سے بجلی کی آنکھ مچولی طلبا و طالبات کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ کل کی تقسیم انعامات کی تقریب میں بھی دیکھا گیا جب تقریب ہال کئی دفعہ اندھیرے میں ڈوب گیا اور شہباز شریف کو پنجاب یونیورسٹی کو جنریٹر خریدنے کا مشورہ دینا پڑا۔ بعد کی خبروں کے مطابق انتظامیہ نے بجلی کی اس آنکھ مچولی کا پروجیکٹ ڈائریکٹر اور انجنیئر کو ذمہ دار ٹھہرایا اور نوکری سے معطل کر دیا۔ یعنی آ جا کے تان نوکری پیشہ غریبوں پر ہی آ کر ٹوٹتی ہے۔