پچھلے ہفتے ایک ٹی وی پروگرام میں جب پانی و بجلی کے وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف سے عمران خان نے سوال پوچھا کہ کیا یہ واقعی سچ ہے کہ حکومت نے پرائیویٹ بجلی گھروں کو ادائیگی نہیں کی جس کی وجہ سے پلانٹ بند ہیں اور وہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے جواب میں اقرار کیا کہ پچھلی حکومت نے یہ بوجھ ان پر ڈالا اور موجودہ حکومت اب تک آدھی رقم ان بجلی گھروں کے مالکان کو ادا کر چکی ہے مگر آدھی رقم ابھی بھی دینا باقی ہے۔
سوچنے والی یہ بات ہے کہ ادائیگی کی رقم روک کر ملک کو بدحالی کی راہ پر ڈالنا کیا کہیں کوئی سازش تو نہیں ہے؟ کیونکہ ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ وہ سو بلین روپے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ملکی معیشت کو کروڑوں روپے کا روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر کارخانے بند ہوں گے تو بے روزگاری بڑھے گی، لوگوں کی قوت خرید کم ہو گی اور ملکی معیشت کی نشونما رک جائے گی۔ اس طرح ہمارا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہو جائے گا جس کی وجہ سے خانہ جنگی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ اخبارنویسوں کی بہت بڑی تعداد اس خطرے کی طرف گاہے بگاہے اشارہ کرتی رہتی ہے مگر ہماری حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
آئی ایم ایف، عالمی بنک اور پاکستان تینوں کے مفاد میں ہے کہ پاکستان ترقی کرے تا کہ وہ اپنا قرض اتار سکے۔ اگر ملکی صنعت کا بیڑہ غرق ہو گیا تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضے ڈوب جائیں گے۔ حکومت کہاں تک بغیر معاشی ترقی کے قرضے اتار پائے گی۔ ایک دن آئے گا ملک لاقانونیت کا شکار ہو جائے گا۔ شواہد سے تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان کو جان بوجھ کر خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس خانہ جنگی کے بعد آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کی عدم ادائیگی کے بدلے اگر پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کر دیا گیا تو ہمارے آقا کیلیے یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔
ہم بھی تمام اخبارنویسوں کی طرح حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ خدارا وہ اس سازش کو سمجھیں اور خودغرضی کو ایک طرف کرتے ہوئے ملک کی فکر کریں۔ اگر ملک ہی نہ رہا تو پھر ان کی کٹھ پتلی حکومت بھی نہیں رہے گی۔ مگر کیا کریں جب دماغ ہی شل کر دیے گئے ہوں تو پھر اپنے عوام انسان نہیں کیڑے مکوڑے نظر آنے لگتے ہیں جنہیں کچل دینا حکمرانوں کیلیے تکلیف دہ نہیں ہے۔