ساغر و مینا بادہ وجام
آنکھ کے آگے دل آرام
نشہ نہ اترے صبح و شام
ہر جانب ہے برپا کہرام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
رقص کریں یوں مرد وزن
ننگا ہو ہر عضو بدن
عشق کرے بھائی سے بہن
شرم سے عاری خاص و عام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
نفس پرستی کا ہو زور
فخر تکبر کا ہو شور
راج کریں ڈاکو اور چور
قتل ، ڈکیتی ، چوری عام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
پاک حکومت غربت سوز
ظلم ہے افزوں روز بروز
شرم کی قاتل این جی اوز
شور مچائیں ، صبح و شام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
سمجھے تھے تجھ کو شہباز
بن گیا تو بش کا ہمراز
کیا تو ، کیا تیری پرواز
کرلیا اس نے زیر دام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
ہر گستاخ نبی کا یار
اہل محبت سے بیزار
دین کے اعدا کا سالار
تیرا فکر و عمل ہے خام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
باغی ہے اللہ کا تو
چیلا ہر گمراہ کا تو
دیوانہ ہے جاہ کا تو
تجھ کو کیا ایمان سے کام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
تجھ کو بھی تو ہے مرنا
دنیا کرے گی ذکر ترا
ہاں ہاں سید ظالم تھا
رکھے گا ابدا بدنام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
وقت ہے اب اللہ سے ڈر
واری جان نبی پہ کر
مسلم جی اور مومن مر
دل سے سن دیں کا پیغام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
ہاں تو حق آگاہ نہیں
تجھ میں دین کی چاہ نہیں
آسی ترا بدخواہ نہیں
نقش لاثانی کا غلام
یہ ہے ترا لبرل اسلام
از پروفیسر محمد حسین آسی
نوٹ – شاعر بعض اوقات غصے ميں کچھ باتيں ايسي کہ گيا ہے جو شاعري میں ہجو کہلاتي ہيں اور اس نظم کے معيار کو تھوڑا کم کرديتي ہيں۔