شگفتہ صاحبہ کی لگائی ہوئی آگ کو منطرنامہ والوں نے مزید ایسی ہوا دی کہ ہمیں بھی اس میں کودنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ ویسے تو ہم تواتر سے بلاگ لکھ رہے ہیں مگر پھر بھی چلیں کوشش کرتے ہیں ساتھ نبھانے کی۔ بچپن کے ویسے تو بہت سارے چھوٹے چھوٹے واقعات یاد ہیں مگر دو تین ابھی بھی یاد کرتے ہیں تو مزہ آتا ہے۔
ہماری بڑی بہن نے بچپن میں ہمیں خود گود میں کھلایا۔ ایک دفعہ وہ ہمیں گلی میں اٹھائے گھوم رہی تھیں کہ انہیں ایک دیوار کے سوراخ میں بھڑوں کا چھتہ نظر آیا۔ انہوں نے یہ چیک کرنے کیلیے کہ بھڑوں کے کاٹنے سے کتنی سوجن ہوتی ہے ہمارا ہاتھ سوراخ میں گھسا دیا۔ بھڑوں نے ہمیں خوب کاٹا اور ہمارے ہاتھ کی سوجن دیکھ کر والدین نے بہن کی خبر بھی خوب لی۔ لیکن ہماری بہن کو یہ پتہ چل گیا کہ بھڑوں کے کاٹنے کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ ہماری ناف کے قریب پھنسی نکل آئی۔ والدین نے بہتیری کوشش کی کہ وہ اس پر پٹی باندھیں مگر ہم یہ کہ کر انکار کرتے رہے کہ ہماری دو دھنیاں [ناف] ہیں۔ پھر کیا تھا پھنسی بڑھتے بڑھتے بڑے پھوڑے کی شکل اخیتار کر گئی اور ہم علاج سے انکار کرتے رہے۔ آخر کار پھوڑا جب بہت بڑا ہو گیا تو درد کرنے لگا اور تب سرجن یعنی نائی کو بلا کر اسے کٹوایا گیا۔ آپریشن کے دوران بہت درد ہوا، ہم نے بہت شور مچایا اور خوب روئے۔ اس کے بعد والدین ہمیں کئی سال تک “میری دو دھنیاں ہیں” کہ کر چھیڑتے رہے۔
بچپن میں ہم اپنی عمر سے تھوڑے بڑے ہمجولی لڑکے اور لڑکی کیساتھ چھپن چھپائی کھیلا کرتے تھے۔ جب بھی ہماری باری آتی، وہ لڑکا ہمیشہ لڑکی کیساتھ اندھیرے میں چھپا کرتا۔ یا جب اس کی باری آتی تو وہ ہمیں ڈھونڈنے کی بجائے لڑکی کو پہلے پکڑنے کے چکر میں اندھیرے میں جپھی ڈال لیا کرتا۔ اس وقت تو ہمیں اس آنکھ مچولی کا پتہ نہ چلا مگر بڑے ہو کر راز کھلا کہ لڑکا ہمیشہ لڑکی کو اندھیرے میں کیوں جپھی ڈالا کرتا تھا۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ لڑکا بڑا ہو کر قرآن حفظ کر کے امام مسجد بن گیا اور اس کی شادی بھی اسی لڑکی کیساتھ ہو گئی۔ آج کل وہ ڈنمارک میں بہت بڑا جل مولوی ہے اور اس کی اولاد نے بھی مساجد سنبھالنا شروع کر دی ہیں۔ اب بھی جب ان سے ملاقات ہوتی ہے ہم انہیں آنکھ مچولی کہ کر ضرور چھیڑتے ہیں۔
9 users commented in " یوم بچپن – ہفتہ بلاگستان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کی بہن نے ضرب المثل پڑھی ہو گی “بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا”۔ تو معلوم کرنا چاہتی ہو گی کہ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے
دوسرے واقعے میں کہیں کردار آگے پیچھے تو نہیں کردئیے آپ نے
😀
اگر اس “جل مولوی “ نے کہیں پڑھ لیا تو۔ یا مسجدیں سنبھالتے “چھوٹے مولویوں“ اپنی اماں اور ابا کے جھپی اور چھپن چھپان کو بارے میں کوئی اندازہ لگایا اور آپ کی بات سمجھ گئے ۔۔تو فساد خلق خدا کا اندیشہ رہے گا
شگفتہ تو اپنی جوانی کے ایام سے شروی ہوئی ہیں، آپ نے بچپن سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھتے ہیں جوان ہوتے ہوتے آپکی شرارتوں میں کتنا اضافہ ہوتا ہے۔
ھا ھا ھا ھا
کیا زبردست سٹوری ہے جی چھپن چھاتی کی
اور ویسے بہنیں ایسا کرتی تو نہیں اپنے بھائیوں کے ساتھ، زیادہ تر لاڈ ہی کرتی ہیں ، مگر لگتا ہے اپ کی بہن بہت شرارتی قسم کی تھیں۔
سلام پاکستان جی
چار پانچ دن میں سے میں گھر پہ نہیں تھی آن لائن ھونے کا موقعہ نہیں ملا اب سب کے بلاگ دیکھے تو میں پریشان ھو رھی تھی یہ سب کو باجماعت اپنا بچپن کیوں یاد آرھا ھے آپ کا بلاگ دیکھا تو سمجھ آیا ھفتہ بلاگستان منایا جا رھا ھے
سب بلاگرز سے بد قسمتی کہ میں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا اور اپنی خوبصورت یادوں کو سب سے شئیر نہین کیا اب سوچ رھی ھوں سب ٹاپکس پہ ایک بار ھی لکھ دوں
ویسے بڑی بہن نے اچھا سبق دیا پھر ساری عمر آپ نے خود بھڑوں کے چھتے میں ھاتھ نہیں دیا ھوگا
دیوار کا سوراخ چھوٹا ہوگا اور آپ کا ہاتھ بھی چھوٹا اس لیئے ڈالا ہوگا آپ کی بہن نے ۔۔
تیسرا واقعہ کافی بالغانہ ہے ۔۔ہمممممم
پہلا واقعہ مزیدار ہے دوسرا سبق آموز اور تیسرا واقعہ لذیذ 😀
Leave A Reply