آج مفت سکول کے موضوع پر عطاالحق قاسمی کا کالم پڑھ کر ہمیں ایک خیال سوجھا اور سوچا کہ یہاں پر لکھ دیں شاید ہماری یہ تجویز پنجاب حکومت تک پہنچ جائے۔ دنیا میں جتنے بھی امیر لوگ گزرے ہیں ان کی اکثریت نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اس کارِخیر کی بدولت ان کی دولت بڑھی ہی ہے کم نہیں ہوئی۔ زکوٰۃ کا نظام بھی اسی اصول پر وضح کیا گیا ہے یعنی امیر لوگ اپنی دولت کا اڑھائی فیصد ہر سال غریبوں میں بانٹ دیا کریں۔ آج یورپی حکمران زکوٰۃ کے نظام کو کاپی کر کے دولت کو اس طرح تقسیم کر رہے کہ یورپ میں کوئی غریب رات کو بھوکا نہیں سوتا۔
لیکن دوسری طرف دنیا میں جتنے بھی کاروبار شروع ہوئے وہ نفع نقصان کی شراکت پر شروع ہوئے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اپنی کمائی سے ترقی کرتے گئے اور انہیں مفت کے مال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ حکومت پنجاب نے دانش سکول سکیم کے تحت پنجاب میں غریبوں کیلیے تیس سکول کھولنے کا پروگرام بنایا ہے جس پر کروڑوں روپے کے اخراجات حکومت برداشت کیا کرے گی۔ ہم حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ یہ سکول سرکاری خرچ پر چلانے کی بجائے نفع نقصان کی بنیاد پر قائم کرے۔ یعنی ان سکولوں میں جو خاندان اس قابل ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی فیس ادا کر سکیں ان کے بچے فیس دے کر پڑھیں اور اس طرح سکولوں کی آمدنی سے غریب بچوں کو مفت تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے۔ اس طرح اگر ایک طرف سکول اپنی مدد آپ کے تحت ہمیشہ کیلیے اپنے پاؤں پر کھڑے رہیں گے تو دوسری طرف صدقہ جاریہ بھی جاری رہے گا۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ امیر اور غریب بچے مل کر تعلیم حاصل کریں گے اور وہ آپس میں گھل مل بھی سکیں گے۔
ضروری نہیں اس ماڈل کر حکومت ہی اپنائے بلکہ فلاحی بنیادوں پر سکول کھولنے والے مخیر حضرات بھی اپنا سکتے ہیں۔ فائدہ یہی ہو گا کہ روز روز کے چندوں اور صدقہ خیرات اکٹھے کرنے سے جان چھوٹ جائے گی۔ جن لوگوں نے کاروباری بنیادوں پر سکول کھول رکھے ہیں وہ بھی اپنے مفافع کا کچھ حصہ غریب بچوں کی تعلیم پر خرچ کر کے اپنے لیے جنت خرید سکتے ہیں۔
6 users commented in " درمیانی راستہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ بہت بڑے مغالطے کا شکار هوگئے هیں ، پاکستان میں امیر لوگ بلکه خود کو بڑا سمجھنے والے سارے ہی وہ بد معاش ہو که چوھدری مفت کو اپنا حق سمجھتے ہیں
اگر مخیر خضرات نے فیس دینی شروع کر دی تو آپ ہوں گے یا پھر میں اور چند دوسرے لوگ
آپ کا کیا خیال ہے که ایم پی اے اور پولیس والے اور فوج والے جو ہیں کسی کو پیسه دے کر راضی ہیں ؟؟
بھولے بادشاہو ، اے پاکی ستان ہے جی ، امریکه نہیں
جناب ہمارے یہاں گداگری کے اسباب ختم نہیں کی جاتے بلکہ اسے بڑھوتری دینے کے پروگرام تشکیل دیے جاتے ہیں اور مفت تعلیم سے لے کر سستا آٹا تک اس کی ایک مثال ہے۔ مفت تعلیم سے زیادہ اچھا ہو کہ یکساں اور میعاری تعلیم کی جانب قدم بڑھایا جائے ورنہ جس قسم کا اسکول زیر بحث ہے وہاں کیونکر کوئی ایسا بچہ پڑھنے آئے گا جس کے والدین فیس دینے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ نئے اسکول کھولنے سے بہتر یہی نہیں کہ جو سرکاری اسکول موجود ہیں ان ہی کی حالت زار کو بہتر بنایا جائے اور انہیں اسکولوں میں مستحق طلبہ کی فیس معاف کردی جائے؟
راشد صاحب آپ بھی کیا بات کرتے ہیں بھائی جی کسی پرانے کام میں ٹانگ گھسیڑنے سے وہ مشہوری تو نہ نا ملے گی نا جو ایک نیا کام بھاویں چند دن بعد ٹھپ ہی کیوں نہ ہوجائے سے ملتی ہے لیں بھئی مجھ پر بھی خاور کھوکھر اور دیگران کا رنگ غالب آگیا ہے!
عنیقہ کے بلاگ پر مینے بھی اپنی کچھ جاہلانہ سی رائے پیش کی تھی،دوبارہ لکھ دیتا ہوں
پاکستان مین تعلیم کا مسئلہ بھی بس اک معمہ ہے سمجھنے کا ناسمجھانے کا!
اگر تعلیم قومیادی جائے تو مشکل اور نجی ملکیت مین دے دی جائے تواور بھی مشکل نجی ادارے عوام کی کھال اتارنے پر تلے ہیں تو قومی ادارے تعلیم کو سرکاری نوکری سمجھ کر ٹائم پاس کرنے پر، آؤ تنخواہ لو اور گھر چلے جاؤ،مسئلہ دراصل ہمارے من حیث القوم کرپٹ ہوجانے کا ہے،
فالحال تو ایک ہی ترکیب ذہن میں آتی ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو سیمی گورنمنٹ کر دیا جائے تاکہ ایک جیسی تعلیم حکومت کے مقرر کیئے ہوئے سلیبس اور فیس کے مطابق ہو،اور نجی اداروں کو بھی اپنی من مانی کا موقع نہ ملے اور سرکاری اداروں کی طرح استاد صرف وقت گزاری اور تنخواہ لینے کے لیئے اسکول نہ آئیں،
یہ بات تو طے ہے کہ میعار تعلیم بہتر کیئے بغیر کوئی بھی قوم ترقی کا تصور بھی نہیں کرسکتی،
جہاں تک تعلیمی اداروں میں سیاست کا تعلق ہے میں کسی حد تک آپ کا ہم خیال ہوں کہ سیاسی پارٹیوں کا اثر رسوخ تمام تعلیمی اداروں سے بلکل ختم کردیا جائے ،اور سیاست ضرور ہو مگر اسٹوڈینٹس کے اپنے مسائل کے اوپر، نہ کہ دوسروں کی کرسی کے لیئے طلباء آپس مین جوتم پیزار کرتے رہیں،
سیاسی جماعتوں کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے ورکرز کو نوازیں، ہوسکتاہے کہ شہباز نیک نیتی سے کام کرنا چاہتاہو، مگر یہ ممکن نہیں۔
ان کاموں کے لیے ایک ہی جماعت ذہن میں آتی ہے جنکے ایم این اے کے متعلق خود اسلام آباد ایم این اے ہاسٹل والے گواہی دیتے ہیں کہ ان کے کمروں سے کبھی شراب کی بو نہیں آتی اور وہاں انہوں نے کبھی کوئی عورت آتی جاتی نہیں دیکھی، مگر خیر ہم تو اس جماعت کے نام کا تبرہ پڑھتے ہیں۔
حقیقت یہی ہے کے ایسے پروگرام وہی جماعت کامیابی سے چلا سکتی ہے جہاں احتساب کا کڑانظام موجود ہے۔ شہباز شریف کو اس جماعت کے جیسے کارکنوں کی ضرورت ہے جب ہی اس جیسے پروگرام کامیاب ہوسکتے ہیں۔
باقی نظام تعلیم کے متعلق میرے بھی کم و بیش وہی خیالات ہیں جو عبداللہ صاحب نے تحریر کئے ہیں۔
نیک خیال ہے آپ کا اور میں بھی اس کے حق میں ہوں کہ ایسے سکول کھولے جائیں جہاں تعلیم کا معیار بہت بلند ہو اور وہاں امیر اور غریب دونوں بچے پڑھ سکیں ، غریبوں سے کم فیس لی جائے اور امیروں سے پوری فیس
Leave A Reply