اب تک جو ہم نے خاندانوں میں نفاق کا تجزیہ کیا ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر خاندان میں  چھوٹی موٹی لڑائیاں صرف باتوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ہم جہاں بھی گۓ اور جس مجلس میں بھی بیٹھے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتے ہوۓ ہی پایا۔ ہمیں ہر دفعہ دوست احباب کو اس موضوع کے علاوہ کوئی اور بات کرنے کی یادہانی کرانی پڑتی ہے۔

 آپ اگر دوست کے پاس بیٹھے ہیں تو دوسرے دوست کی برائیاں آپ کی گفتگو کا محور ہوں گی۔ اگر آپ عزیزوں رشتہ داروں کے مہمان ہیں تو بھر کسی تیسرے رشتہ دار ک برائی آپ کا موضوع ہو گا۔ اگر آپ ملازم ہیں تو آپ اپنے ساتھی سے اپنے باس سمیت دوسرے ساتھیوں کی برائی کر رہے ہوں گے۔

بات برائی کرنے کی حد تک رہے تو گزارہ ہوسکتا ہے مگر جب ہم میں سے کوئی رازداں ہماری چغلی دوسرے شخص سے لگا دیتا ہے تو پھر بات بگڑ جاتی ہے۔ مثلاٰ آپ کسی عزیز سے ملنے اس کے گھر گۓ اور ایک دو روز اس کے گھر قیام بھی کیا۔ آپ کے جانے کے بعد آپ کے عزیز نے دوسرے عزیز سے آپ کے بچوں کی بری حرکات کی بات کردی ۔ اب اس عزیز نے وہی بات بعد میں آپ کو بتا دی۔ تب آپ کا پارہ چڑھ گیا اور آپ اس شخص سے گلہ کربیٹھے۔ اس کے بعد آپ کے تعلقات میں سرد مہری آگئی اور ایک اچھی بھلی رشتہ داری غیبت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ہونا تو یہ چاہۓ تھا کہ آپ کا عزیز آپ سے براہِ راست بات کرتا تاکہ آپ اپنے بچوں کی اصلاح کرسکیں۔ مگر چونکہ ہمارا مقصد اصلاح کی بجاۓ دوسرے کو ذلیل کرنے کا ہوتا ہے اسلۓ ہم غیبت کی راہ اپناتے ہیں۔

بعض اوقات آپ اس عادت کی وجہ سے اپنے اچھے اچھے دوستوں عزیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور پھر زندگی بھر آپ ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھتے۔ اگر ہم تھوڑا سا عقل سے کام لیں تو ہم اپنے تعلقات کو خوشگوار بنا کر رکھ سکتے ہيں لیکن شرط یہی ہے کہ غیبت سے توبہ کرلیں۔

بعض لوگوں کا کام ہی دو دوستوں میں پھوٹ ڈالنا ہوتا ہے اور وہ یہ کام اس صفائی سے کرتے ہیں کہ آپ کو تب پتہ چلتا ہے جب آپ کی دوستی ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ اس طرح کے لوگ بات شروع کرنے سے پہلے یہ ضرور کہیں گے کہ چونکہ وہ آپ کے خیر خواہ ہیں اسلۓ وہ یہ بات آپ کی بھلائی کیلۓ بتا رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ آپ کے کان اسطرح بھریں گے کہ آپ اپنے بہن بھائی کا منہ دیکھنے سے بھی جائیں گے۔

ہم اپنے معاشرے سے آدھی برائیاں ختم کرسکتے ہیں اگر غیبت کرنا چھوڑ دیں اور نبی پاک صلعم کی اس حدیث کوپلے باندھ لیں کہ غیبت کرنا ایسے ہی ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔

آپ اگر اپنے اردگرد نظر دوڑا کے دیکھیں تو خاندانوں اور دوستوں کے درمیان لڑائی کی بڑی وجہ یہی غیبت ہی ہے۔ یہ کم ہی ہوتا ہے کہ آپ کے دوست احباب آپ کو چونا لگا جائیں اور آپ ان سے قطع تعلق کرلیں۔ چونا لگانے والے ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر۔ اکثریت آپ کو غیبت خوروں کی ہی ملے گی۔

ہم نے تو اپنے بہن بھائیوں کو سختی سے منع کیا ہوا ہے کہ وہ ہمیں دوسرے بہن بھائی کی کوئی بری بات نہیں بتائیں گے۔ اگر کبھی بات کریں گے تو اچھے انداز میں کریں گے وگرنہ کسی اور موضوع پر بات کریں گے۔ اس کے بعد سے ہم چین سے ہیں اور لڑائی ہوۓ بھی کافی عرصہ ہوچکا ہے۔ آپ بھی اس نسخے پر عمل کرکے دیکھیں انشآ اللہ آفاقہ ہوگا۔