آج کل جو بھی حکومت کے کرنے والے کام ہیں اور وہ کسی وجہ سے نہیں کر پا رہی تو اس کی حجت وزیراعظم اور صدر سمیت تمام حکومتی عہدیدار یہ پیش کر رہے کہ اگر اسمبلی چاہے تو یہ ہو سکتا ہے۔ جب ججوں کو بحال کرنا تھا تو یہی رٹ تھی کہ اسمبلی کرے، پھر مشرف کی برطرفی کا سوال آیا تو اسمبلی کو آگے لگایا گیا وہ تو شکر ہے بقول صدر زرداری کے مقامی اور بیرونی ضمانتوں نے کام کر دیا اور اسمبلی کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ بھٹو کی پھانسی ایک سیاسی قتل مانا جاتا ہے۔ اس مقدمے کو ری اوپن کرنے کا بہانہ بھی اسمبلی پر ڈال دیا جاتا ہے۔

سترہویں ترمیم کو ختم کرنے کی بات ہو، مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کی بات ہو یا پھر کوئی اور آئینی مسئلہ ہو بوجھ اسمبلی پر ڈالا جا رہا ہے۔ دوسری طرف جو کام کرنے کے ہیں وہ اسمبلی میں پیش کئے بغیر کر دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول، پاور پلانٹس کی خریداری، بلتستان اور گلگت کی خودمختاری، بلیک واٹر کی منظوری وغیرہ صدر زرداری نے یک جنبشِ قلم کر دیے اور اسمبلی میں ان پر بحث کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔

جب صدر زرداری اور وزیراعظم وہ کام اسمبلی کے ذمے لگاتے ہیں جو ان کا کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا تو وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ وہی دو شخصیات ہیں جو اسمبلی سے یہ کام کروا سکتی ہیں۔ نہ ہی میڈیا وزیراعظم اور صدر سے افطاری کی محفلوں کے دوران ان سے یہ پوچھتا ہے کہ اگر یہ کام اسمبلی نے کرنے ہیں تو پھر کون کروائے گا؟ اسمبلی کے لیڈر تو وزیراعظم ہی ہیں اور وزیراعظم صدر زرداری کے ماتحت ہیں تو پھر دیکھا کس کی طرف جا رہا ہے۔

حالات یہی بتا رہے ہیں کہ فوجی ڈکٹیٹر کی طرح اب ملک میں سول ڈکٹیٹر شپ ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ غیرملکی ڈکٹیٹر شپ ہے اور سول حکمران اس کے مہرے ہیں۔ غیرملکی طاقتوں کے آگے نہ اسمبلیوں کی کوئی وقعت ہے اور نہ حکمرانوں کی۔ بس عوام کو بیوقوف بنانے کیلیے اسمبلی کا بہانہ تراشا جا رہا ہے۔ حالانکہ حکمرانوں کو معلوم ہے جو وہ کرنا ہی نہیں چاہتے ان پر نہ اسمبلی متفق ہو گی اور نہ وہ کام ہوں گے۔

ویسے بھی جس پارلیمنٹ کے نمائندے ڈاکٹر فردوس اعوان کی طرح کے ہوں جن کو عورتوں والی لڑائی بھی لڑنے کا سلیقہ نہ آتا ہو ان کی ذہانت سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ ربر سٹیمپ بنے رہو اور غیرت اور خودمختاری نام کی چیز کی بھول جاؤ۔