جنرل صدر مشرف اور صدر بش آجکل دونوں ایک ہی مہم سر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ ہے آنے والے الیکشن۔ جنرل صدر مشرف اپنے اگلے اسمبلی کے الیکشن کی فکر میں ہیں اور صدر بش کو نومبر کے سینیٹ اور ہاؤس کے الیکشن کی فکر دامن گیر ہے۔ دونوں کو یقین ہے کہ وہ یہ الیکشن صرف سیکورٹی ایشو کی بنا پر جیت سکتے ہیں۔ جنرل صدر مشرف اپنے آپ کو پاکستان کا مسیحا ثابت کرنے کے چکر میں ایسی ایسی حدیں پھلانگ رہے ہیں کہ عقل رنگ رہ جاتی ہے۔ اسی طرح صدر بش اپنے حلیف کی عزت کی پرواہ کۓ بغیر ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ ان کے مہمان حلیف کا حیرت سے منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔

جیسا کہ جنرل صدر مشرف موجودہ امریکی دورے سے قبل کئ دفعہ کہ چکے ہیں کہ وہ کسی غیرملکی فوج کو اپنے ملک میں کاروائی نہیں کرنے دیں گے اور یہی بات انہوں نے اس دورے میں بھی دہرائی ہے۔ مگر ساتھ ہی صدر بش نے ایک انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر انہیں پتہ ہو کہ اسامہ پاکستان میں موجود ہے تو وہ ضرور پاکستان کے اندر کاروائی کریں گے اور اسے پکڑیں گے۔ اب آپ بتائیں جنرل صدر مشرف کی عزت خراب ہوئی کہ نہیں۔

اسی طرح جنرل صدر مشرف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ انہوں نے ۹۱۱کے بعد امریکہ کی ساری شرائط اس لۓ مان لیں کہ اس وقت کے ڈپٹی سیکریٹری رچرڈ آرمٹیج نے ان کے آئی ایس آئی کے سربراہ کو یہ دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نہ دیا تو پاکستان بمباری کیلۓ تیار ہوجاۓ اور ہم اسے پتھر کے زمانے کی طرف دوبارہ لوٹا دیں گے۔ یہ زمانہ اب کمیونیکیشن کا زمانہ ہے اور ہربات کی تائید یا تردید منٹوں میں ہوجاتی ہے۔ وہی ہوا کہ رچرڈ نے ان الفاظ کی تردید کردی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہ دیا کہ انہوں نے پاکستان کو بڑے سخت الفاظ میں وارننگ ضرور دی تھی وہ الفاظ کیا تھے یہ انہوں نے نہیں بتایا اور یہ بھی کہا کہ پاکستان نے بناں چوں چراں کۓ ہمارے سارے مطالبات مان لۓ۔ اب بتائیں جنرل صدر مشرف کے ہاتھ کیا آيا۔ کیا یہ ضروری تھا کہ اس طرح کے وارننگ کے الفاظ بیان کرکے اپنی تضحیک کی جاتی۔ ہوسکتا ہے اس طرح جنرل صدر مشرف نے پاکستانی عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہو اور انہیں ڈرایا بھی ہو کہ اگر میں امریکہ کی ساری شرطیں نہ مانتا توامریکہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا۔ اس طرح انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہی پاکستان کے مسیحا ہیں۔

اب اس نوار کشتی میں کون کس کو چکر دے رہا ہے اور کس کی جیت ہوگی یہ آنے والا وقت ہی بتاۓ گا۔