جنرل صدر مشرف امریکہ کے تین ہفت کے دورے پر تھے اور اپنے ساتھ ستر لوگوں کا وفد لے کرگۓتھے۔ بظاہر تو صدر کے دورے کا مقصد یو این کے اجلاس میں شرکت اور اسمبلی سے خطاب کرنا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی کتاب کی تشہیر اور رونمائی بھی کرنی تھی۔ دوسرے سربراہانِ مملکت اسمبلی سے خطاب کرکے اپنے اپنے ملکوں کو لوٹ گۓ مگر جنرل صاحب اپنے سارے گروپ کیساتھ اپنی کتاب کی رونمائی کیلۓ دوہفتے مزید امریکہ رک گۓ۔ اس دوران وہ ایک دن نیویارک میں ہوتے تھے تو دوسرے دن واشنگٹن میں اور تیسرے دن اپنا طبی معائنہ کروانے ٹیکساس چلے جاتےتھے۔ اگر اتنے بڑے وفد کے اخراجات کا حساب لگایا جاۓ تو خرچہ کروڑوں روپوں میں بنے گا اور ہوسکتا ہے یہ خرچہ ان کی کتاب کی قیمت سے بھی زیادہ نکلے۔ مگر انہیں کیا وہ تو اُس عوام کا روپیہ خرچ کر رہےتھے جسے کوئی اعتراض ہی نہیں تھا۔ عوام کے خرچ پر ہم نے دورہ کیا اور کتاب کی آمدنی جیب میں ڈال کر گھر لوٹ آۓ۔ 

ہمارے وزیرِ اطلاعات درانی صاحب شکل سے بہت مؤدب اور سلجھے ہوۓ لگتے ہیں مگر جب صدر کا دفاع کرتے ہیں تو پھر اپنی شخصیت کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے ایسے عجیب انداز سے اپنے جنرل صدر کے امریکہ کے اس طویل دورے کی تعویلات گھڑیں کہ ان کی معصومیت پر ترس آنے لگا۔

ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی جب قوم کو کوئی اعتراض نہیں تھا تو پھر چکر دینے کی کیا ضرورت تھی۔ سیدھی طرح کہتے کہ ہم امریکہ کی سیر کرنے آۓ تھے اور ساتھ ہی اپنی کتاب کی کمائی بھی کرکے چلے گۓ۔ آپ بے فکر رہیں اب پاکستانی اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ جب تک آپ ان کی ذاتی جیب میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے اور ذاتی زندگی میں دخل اندازی نہیں کریں گے وہ آپ کو کچھ نہیں کہیں گے ۔ چاہے آپ امریکہ میں مہینہ رہیں یا سال، آپ کو اجازت ہے۔ لوگوں کو آپ نے ہی “پہلے پاکستان” کا سبق پڑھا کر ایسا پکا کر دیا ہے کہ وہ ہر کام سے پہلے اب “پہلے میرا مفاد” کی بات کرتے ہیں اور پھر ملک کے بارے ميں سوچتے ہیں۔

جہاں ہمارے حکمران خود غرض ہوچکے ہیں وہیں ہماری قوم بھی خود غرض ہوچکی ہے۔ پتہ نہیں کب ہمیں عقل آۓ گی اور کب ہم اپنے حکمرانوں کا احتساب ان کے جہاز سے اترنے سے پہلے ہی شروع کردیا کریں گے۔