آج یاہو کی خبر کے مطابق برطانوی اخبار نویس رابرٹ فسک نے ڈالر کے کمزور ہونے کی رپورٹ چھاپ کر معاشی دنیا میں تہلکا مچا دیا ہے۔ رابرٹ فسک پچھلے تیس سال سے لبنان میں رہ رہا ہے۔ یہ وہی اخبار نویس ہے جو اسامہ بن لادن سے تین بار انٹرویو کر چکا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے نو گیارہ پر سے پوری طرح پردہ نہیں اٹھایا۔

رابرٹ کہتا ہے کہ عرب شیخ چین اور روس سے بات کر کے ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت رابرٹ ڈالر کی کمزوری اور سونے کی قیمت میں اضافہ پیش کر رہا ہے۔ ڈالر عرصے سے عالمی تجارت کی مرکزی کرنسی رہا ہے اور اگر اب اس کی جگہ کسی اور کرنسی نے لے لی تو امریکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔

فی الحال ہمیں تو اس کہانی کا فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ جو گھر ہم نے کینیڈا میں بیچا ہے اس کی رقم کینیڈین سے یو ایس ڈالروں میں منتقل کرنے والے ہیں۔ مگر دوسری طرف اگر کہانی کے مطابق عرب شیخوں نے 2018 تک اپنا کاروبار ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں شروع کر دیا تو پھر امریکی اکانومی کا بیڑہ غرق ہو جائے گا جو پہلے ہی سنبھلنے نہیں پا رہی۔ ہماری نوکریاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی اور کیری لوگر بل کی ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد جو پہلے ہی پاکستانی لینے سے انکاری ہیں بھی شاید کھٹائی میں پڑ جائے ۔

رابرٹ نے اس افواہ کا منبع نہیں بتایا اور نہ ہی کوئی اشارہ دیا ہے کہ عرب شیخوں نے کب اور کس کیساتھ رابطہ کیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا اس کہانی میں واقعی دم ہے یا پھر رابرٹ نے افواہ پھیلا کر سونے کے سوداگروں کو اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔