جدید ٹیکنالوجی سے پہلے لوگ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے کارٹون دیواروں پر پینٹ کر دیا کرتے تھے۔ پھر اخباروں میں چھپنے لگے مگر بہت کم کیونکہ اخباروں کی آمدنی حکومتی اشتہارات  سے مشروط ہوتی تھی۔ آج کل ٹی وی پر حکمرانوں کا جتنا مذاق اڑایا جاتا ہے دو دھائیاں پہلے اس کا تصور بھی محال تھا۔

اب وقت بدل چکا ہے۔ جس طرح حکمرانوں کو الیکٹرونک میڈیا نے کھنگالنا شروع کیا ہے وہ دن دور نہیں جب حکمران حقیقت میں عوام کی ملکیت ہوا کریں گے اور وہی کیا کریں گے جو عوام چاہیں گے۔

حکمرانوں کی کرپشن کو ننگا کرنے کیلیے انٹرنیٹ بہت بڑا رول ادا کر رہا ہے کیونکہ اس پر ابھی ویسی پابندیاں نہیں لگائی جا سکیں جس طرح کی پابندیاں اخباروں اور ٹي وی پر لگائی جاتی رہی ہیں۔ اکثر اس رعایت کا فائدہ لوگ اٹھا رہے ہیں اور اپنے دشمنوں کی وہ مٹی پلید کر رہے ہیں کہ پڑھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

جس طرح ٹونی بلیئر کے دور میں کتا لکھنے سے اس کا نام گوگل کیا جاسکتا تھا آج کل زرداری لکھ کر پتہ نہیں کیا کیا گوگل ہو رہا ہے۔ آج ہم نے سوچا زرداری اور نظم کو گوگل کر کے دیکھا جائے کہ کسی نے ابھی تک مشرف کی طرح ان پر بھی طبع آزمائی کی ہے کہ نہیں۔ گوگلنگ کے دوران ہمیں فیس بک کا مندرجہ ذیل اکاؤنٹ نظر آ گیا۔ ہم سوچ رہے ہیں اگر فیس بک کی انتظامیہ ایسے اکاؤنٹس بنانے کی اجازت دے رہی ہے تو پھر ہر کوئی کچھ بھی انٹرنیٹ پر لکھ سکتا ہے۔ حیرانی یہ جان کر ہوئی کہ اس اکاؤنٹ کے اڑسٹھ ہزار سے زیادہ سپورٹر ہیں۔ اب زرداری صاحب اور ان کے حواری بتائیں وہ ان لوگوں پر کیسے مقدمہ کریں گےzardarifacebook۔