تبلیغی اجتماع کے دوسرے مرحلے پر کچھ اس طرح کی دعا کی گئی۔

یااللہ ہمیں اپنی پناہ میں لے لے اور ہماری توبہ قبول فرما تو بخشنے والا مہربان ہے

شیطان کی صحبت سے بچا اور صالحین کی صحبت نصیب فرما

اے اللہ ہمیں نماز کا پابند بنا دے

اے اللہ تو ہمیں اپنے نبی کے رنگ میں رنگ دے

یہاں سوچنے والی یہ بات ہے کہ بیس بیس لاکھ کے ان دونوں اجتماعات کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہو رہیں۔ سیدھی سی بات ہے صرف دعاوں سے اگر کام چل جاتا تو سارے پیغمبر گھر بیٹھے رہتے۔ خدا خود کہتا ہے جب تک تم اپنی حالت بدلنے کا خیال دل میں نہیں لاو گے میں تمہاری حالت نہیں بدلوں گا۔

ہو گا کیا، اس سہ روزہ اجتماع کے بعد عام مسلمان پھر دنیاوی کاموں میں مصروف ہو جائیں گے اور دنیا جہاں کی بے ایمانیوں سے لیس اپنے اپنے کاروبار کرنے لگیں گے۔ کوئی جھوٹ بول کر سودا بیچ رہا ہو گا، کوئی ملاوٹ کر رہا ہو گا، کوئی رشوت لے رہا ہو گا، کوئی چینی کیلیے قطار میں کھڑا صدر زرداری کو دنیا جہان کی گالیاں دے رہا ہو گا، کوئی حرام کے مال سے پیٹ بھر کر کہتا ہو گا یہیں پر کھا لو آخرت کس نے دیکھی ہے۔

پھر اگلے سال یہ لوگ اجتماع میں اکٹھے ہوں گے پچھلے سال کے گناہوں کی معافی کیلیے اپنے پیر کی دعا کیساتھ آمین کہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ اس کے بعد اگلے اجتماع میں معافی مانگنے کیلیے مزید گناہ کرنے لگیں گے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تبلیغی جماعت کے سربراہ سب سے پہلے اپنے مریدین سے پچھلے سال کا حساب لیتے۔ اچھے کام کرنے والوں کو انعام دیتے اور برے کام کرنے والوں کی سرعام سرزنش کرتے۔ پھر کچھ اس طرح کی دعا کرتے۔

اے اللہ جب میں رشوت لینے لگوں تو میرے ہاتھ ٹیڑھے کر دینا

اے اللہ جب میں جھوٹ بولوں تو میرے ہونٹ سی دینا

اے اللہ جب میں اپنے ہی لوگوں کو دھوکہ دینے لگوں تو مجھے ذلیل و رسوا کرنا

اے اللہ جب میں جھوٹ بولوں تو میری زبان کتر دینا

اے اللہ جب میں کسی عورت کیساتھ منہ کالا کروں تو میرا منہ حقیقت میں کالا کر دینا

اے اللہ جب میں ووٹ کسی بدمعاش یا غنڈے کو ڈالنے لگوں تو میرے ہاتھ شل کر دینا