جاوید گوندل صاحب نے ہماری تازہ تحریر پر جو تبصرہ کیا ہے وہ باقاعدہ ایک پوسٹ ہے اسلیے اسے ہم یہاں چھاپ رہے ہیں۔ امید ہے جاوید گوندل صاحب برا نہیں منائیں گے۔

جاوید گوندل صاحب لکھتے ہیں۔

یارو!
کچھ ذکر بارے یہ بھی ہو جائے کہ ملک جل رہا ہے۔ اس کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟ ۔ آخر کب تک؟۔ کیا اپنی جان کی خیر مناتے بھاگتے ہوئے شدت پسند اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ انتہائی حساس اور ہائی ویلیو ٹارگٹس کے بارے میں تقریباّ سو فیصد درست معلومات کے ساتھ ہماری مختلف ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اسقدر تباہی جب اور جہاں چاہیں مچا سکتے ہیں؟۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ہمارے ایجنسییز کے ہاتھ پاؤں باندھے جا چکے ہوں؟۔ یوں تو نہیں ُ ُ میری بُکل دے وچ چور نی“ والا معاملہ تو نہیں۔ کہ وہ جو دہشت گردی کے خلاف سو سالہ جنگ کا اعلان کرتے ہیں ُ ُ وہی“ اصلی دہشت گرد ہوں۔ جب خدانا خواستہ پاکستان کے ملکی وقار و آزادی کی دکان بڑھ جائے تو ُ ُ یہ“ اپنی دکان ننگ ملت، غدار وطن اور بزدل جرنیل مشرف کی طرح اپنے اپنے ولی نعمت برطانیہ و امریکا سدھار جائیں، اور اگلی کئی دہائیاں، ہم اپنی زخم زخم روح سے کرچیاں چنتے رہیں۔

موجودہ دہماکے افغانستان کی سویت یونین جنگ کے دور میں پاکستان کے اندر تب کی کے، جی، بی، خاد اور بھارتی را کی ملی بھگت سے ہونے والی دہشت گردی میں بہت مماثلت نظر آتی ہے۔ بس اس بار پرانے دہشت گردوں میں اپنے مذموم مقاصد میں بدنام بھارتی ایجنسی را پاکستان میں سرگرم ہے جس کے ساتھ موساد اور امریکی شامل ہیں۔؟ کیا یہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو ہماری حکومت میں سبھی لوگ تو بکاؤ مال نہیں ہونگے،اس بات سے قطع نظر کہ وہ بھی پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں مگر بہت سوں کو تو پاکستان میں ہی رہنا ہے اور ان میں سے بہت سے محب وطن بھی ہونگے تو پھر ان کی زبانیں کیوں بند ہیں؟۔ وہ کھل کر اصل حقائق عوام کو کیوں نہیں بتاتے؟

پوری دنیا کی مختلف خفیہ ایجنسیز کے پاس کاؤنٹر اینٹیلی جنس اور جوابی حملوں کا اپنا سا انداز ہوتا ہے۔ جس میں دشمن کو اسی کی زبان میں جواب دیا جاتا ہے تانکہ وہ اپنے مذموم مقاصد اور ملکی استحکام کو خراب کرنے سے باز آجائے، بے شک ایسے اقدامات اکثر اوقات مروجہ قانون اور اخلاقی ظابطوں کے پاند نہیں ہوتے جبکہ پاکستان او ر بھارت جیسے ممالک کے خفیہ اداروں کے پاس سالوں بلکہ دہائیوں تک کے لئیے پہلے سے تیار شدہ پلان ہوتے ہیں۔ کیا پاکستان میں را کی دہشت گردی بامبے دہماکوں کے بعد نئے نئے وزیر داخلہ بننے والے چد امبرم کے اس بیان کا متواتر تسلسل ہے جس میں موصوف نے دہمکی دی تھی کہ ہمارا اقدام ایسا ہوگا کہ ساری دنیا دیکھے گی۔ کیا موجودہ دہشدت گردی کی لہر ہی وہ جواب ہے جس کی دہمکی بھارتی وزیر داخلہ نے دی تھی ۔ یا اس سے دو قدم آگے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اس سازش میں بھارت پورے زورو شور سے شامل ہے جس میں پاکستان کے اندر خدانخواستہ ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ ریاست پاکستان کی عملا عمل داری ختم ہوجائے؟ تانکہ پاکستان کو اسکی جوہری طاقت سے محروم کر دیا جائے اور لگے ھاتھ پاکستان کا جغرافیہ مختصر کر دیا جائے۔؟ آخر ہماری ایجنسیز کے وہ پلان کیا ہوئے جو جوابی کاروائی کے متلق ہوتے ہیں؟ کیا پاکستان حکومت میں کچھ لوگ جان بوجھ کر کسی کے اشارے پہ آنکھیں بند کئیے ہوئے ہیں؟۔ یا پھر جمہوری حکومت کے چل چلاو کے لئیے فوج کو لانے کے لئیے جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کئیے جارہے ہیں؟۔ آخر پاکستان میں بہت سے بزعم خویش دانشور کیوں اسقدر زوروشور سے اس ساری دہشت گردی صرف اور صرف بھاگتے اور جان بچاتے چھپتے ہوئے نام نہاد اسلامی شدت پسندوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔ اس ضمن میں گورنر پنجاب کا راولپنڈی میں یہ بیان کہ نہ امریکہ ، نہ بھارت ان دہماکوں کا ذمہ دار ہے بلکہ یہ طالبان تحریک طرز کے دہشت گردوں کی کاروائی ہے، نزیر ناجی نے بھی جنگ کے صحفات پہ بھارت و اسرائیل کی صفائی دی ہے اور امریکہ کو داد۔ آخر ہمارے نام نہاد زعماء بھارے و امریکہ کی اس شدومد سے صفاءیاں کیوں دے رہے ہیں؟ جبکہ پاکستان میں سبھی اہل بصریت بھاگتے ہوئے باغیوب کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ اس مختصر وقت میں انتائی ہائی ویلیو ٹارگٹس کو سو فیصد درست معلومات کے ساتھ اس قدر کامیابی سے نشانہ بنا سکیں۔ اسکے لئیے کسی ریاست کے وسائل اور خفیہ ادروں کی سالوں کی اکھٹی کی ہوئیں معلومات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تو پھر ان نام نہاد دانشوروں کی امریکہ بھارت اور اسرائیل کے لئیے اتنی صفائی دینا کیا معانی رکھتا ہے۔؟ کیا انہیں بھی کہیں بہت اوپر سے اشارہ ہوچکا ہے؟۔

ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان جیسے ممالک ہر قسم کے بحرانوں کے پیٹ سے زندہ برآمد ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم نے جس قدر مسائل جھیلے ہیں اور متواتر جھیل رہی ہے۔یہ قوم (پاکستانی قوم) دہشت گردی کے اس تازہ لہر کو بھی جھیل جائے گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ سے کیا پاکستان مضبوط اور محفوظ ہوا ہے؟ کیا قومی غیرت و آزادی کو گروی رکھ صرف مقتدر طبقے کی اللوں تللوں کے لئیے حاصل کی گئی امداد و خیرات سے پاکستان کتنے دن چل سکتا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف اس شرمناک جنگ میں جسمیں ہماری انگت اموات جو نیٹو ، افواج، امریکن افواج اور ان ممالک کے عوام کی کل ملا کر ان سب سے کئی گنا زیادہ اموات پاکستانی فوج اور عوام کی ہوئی ہیں۔ پاکستان اسووقت کھربوں ڈالرز کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ کیا امریکہ سے ملنے والے کچھ ارب ڈالرز کے بدلے میں اس نام نہاد جنگ میں پاکستان کو ہروال دستہ بنے رہنا چاہئیے۔ پاکستان کی دکھتی رگ اور شہ رگ کشمیر کا مسئلہ حل کئیے بغیر، پاکستان کے لئیے کسی طویل المدت توانائی حاصل کرنے کے بڑے پراجیکٹس میں مدد دئیے بغیر یا پاکستان میں بڑی صنعتوں میں سرمایہ کاری کئیے بغیر امریکہ کے چند سو ارب ڈالرز جس کا بیشتر حصہ مستقبل کے این او آرز کا حصہ بن جائے گا۔ کیا ایسی صورت میں ہمیں امریکہ سے اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد دوستی کی پینگیں بڑھاتے چلے جانا چاہئیے یا امریکہ سے کچھ اپنے مطالبات بھی منوانے چاہئیں؟۔

پاکستان کے غریب عوام جن کی چالیس فی صد عوام انتائی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں، جو ہر روز جسم اور جان کا تعلق آپس میں رکھتے ہوئے بمشکل زندہ ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق صدر زرداری نے این اور آر کے تحت ان غریب عوام کا تقریبا ڈیڑھ کھرب لُوٹا ہوا ر وپیہ معاف کروایا ہے ۔ این آر او جو مشرف اور امریکہ کی اختراع تھی ۔ ایسے میں امریکہ کا بار بار اس بات پہ بضد ہونا کہ امریکہ پاکستان میں جمہوری حکومت کے ہاتھ مظبوط کرے گا، کیا امریکہ کے نزدیک پاکستان میں جمہوریت کا یہی رول ماڈل ہے۔ جس میں پاکستان مذید غریبہ کا شکار ہو جس سے اور افراتفری اور انتشار پھیلے؟

کیا یہ سارے عوامل اور دہشت گردی اسلام کے بارے میں سطحی سی معلومات رکھنے والے دہشت گردوں کی منصوبہ بندی ہے یا اس کے پیچھے شاطر اور عیار ذہن کام کر رہے ہیں؟ یہ ہے وہ اصل سوال جس سے پردہ اٹھنا ضروری ہے۔ ورنہ جب لٹیرے اپنے والی نعمت آقاؤں کی پناہ میں بھاگ جائیں گے جیسے مشرف نکل گیا اور ہم سانپ کے نکلنے کے بعد محض لکیر پیٹ رہے ہونگے۔ اس کلچر کو پاکستان میں بدلنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے مسائل ہمیں ہی حل کرنے ہونگے ۔ آزاد خطے اور ممالک ہمیشہ کے لئیے غیر ملکی خیرات اور امداد پہ نہیں چل سکتے ۔ اور غیر ملکی امداد بھی ایسی کے جس کے دینے والے کے ھاتھ سے امداد میں ملے زہر کی بو آتی ہو۔