پاکستان کے سابق صدر غلام اسحٰق خان آج پشاور میں اکیانوے سال کی عمر میں انتقال فرما گۓ۔ ان کو آج ہی رات سپردِ خاک کردیا گیا۔ ان کی نمازِ جنازہ میں معروف شخصیات نے شرکت کی۔ پتہ نہیں کیوں پاکستان کے موجودہ صرد، وزیرِ اعظم اور سینٹ کے چیئرمین نے سرکاری آداب کو پسِ پشت ڈال دیا اور ان کے جنازے میں شرکت نہیں کی۔

سوانحی خاکہ

غلام اسحٰق خان بیس جنوری انیس سو پندرہ کو ضلع بنوں کے علاقے اسماعیل خیل کے پشتو خاندان ميں پیدا ہوۓ۔ انہوں نے کیمسٹری اور بوٹنی ميں گریجویشن کیا اور انیس سو چالیس میں انڈین سول سروس سے منسلک ہوگۓ۔ آزادی کے وقت وہ مغربی پاکستان میں آپ پاشی سے متعلق منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد نائب تحصیل دار اوگی سے منصبِ صدارت تک غلام اسٰحٰق خان نے کئی اہم عہدوں پر کام کیا لیکن ان پر مالی بدعنوانی کا کبھی کوئی الزام نہيں لگا۔ ایمانداری، دیانت داری اور میرٹ کی بالادستی ان کی شہرت کی بڑی وجہ تھی۔ ایٹمی پروگرام کو تحفظ دینے اور آگے بڑھانے میں بھی غلام اسحٰق خان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے مختلف حکومتوں میں کام کیا لیکن صدر ضیاالحق کے دور میں انہیں کافی ااہمیت ملی۔ صدر ضیا الحق نے غلام اسحٰق خان کو مشیرِ خزانہ اور بعد میں وفاقی وزیرِ خزانہ مقرر کیا۔ فروری انیسن سو پچاسی کے انتخابات میں انہوں نے سینیٹ کی نشست پر کامینابی حاصل کی اور چیئرمین سینیٹ منتخب ہوۓ۔ سترہ اگست انیس سو اٹھاسی کو صدر ضیاالحق کی وفات کے بعد غلام اسحٰق خان آئین کے تحت قائم مقام صدر بن گۓ۔ سولہ نومبر انیس سو اٹھاسی کو قومی اسبلی اور انیس نومبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوۓ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابات کے بعد غلام اسحٰق خان نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت بےنظیر کو اس شرط پر وزیرِ اعظم تعینات کیا کہ وہ صدارتی انتخاب میں ان کی حمایت کریں گی۔ اس سمجھوتے کے تحت پیپلز پارٹی کے ارکان نے صدارتی انتخاب میں غلام اسحٰق خان کو ووٹ دیۓ جبکہ اسلامی جمہوی اتحاد نے بھی ان کی حمایت کی۔ تیرہ دسمبر انیس سو اٹھاسی کو دو چار امیدواروں میں سب سے زیادہ چھ سو آٹھ ووٹ لے کر باضابطہ طور پر صدر منتخب ہوۓ اور انیس سو ترانوے تک اس عہدے پر فائز رہے۔ غلام اسحٰق خان کا دورِ صدارت دو حکومتوں کی برطرفی کی وجہ سے متنازع سمجھا جاتا ہے۔ بے نظیر کے ساتھ ان کے اختلافات کا آغاز مسلح افواج کے سربراہوں اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تعیناتی سے ہوا۔ وقت کے ساتھ اختلافات بڑھتے گۓ اور چھ اگست انیس سو نوے کو انہوں نے آئین کی متنازعہ آٹھویں ترمیم کے تحت بےنظیر کی حکومت بدعنوانی، بدانتظامی اور اقرباپروری کے الزامات میں برطرف کرکے غلام مصطفیٰ جتوئی کو نگراں وزیرِ اعظم مقرر کیا۔ بیس اکتوبر انیس سو نوے کو نۓ انتخابات ہوۓ اور نواز شریف وزیرِ اعظم منتخب کۓ گۓ۔ انیس سو ترانوے میں غلام اسحٰق خان نے بدعنوانی، بدانتظامی اور اقربا پروری کے الزامات میں نواز شریف کی حکومت بھی برطرف کردی تاہم اس کے نتیجے میں تنازع کھڑا ہو گیا اور اس کے نتیجے میں خود غلام اسحٰق خان کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔ مرحوم صدر نے سرحد کے علاقے ٹوپی میں اپنے نام سے غلام اسحٰق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسز قائم کیا۔

یہ تو تھا ان کا سوانحی خاکہ۔  جہاں تک ہم نے دیکھا اور پرکھا، غلام اسحٰق خان بہت ذہین مگر شاطر انسان تھے وہ جانتے تھے کہ کیسے اور کہاں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ انہوں نے اپنی پانچوں بیٹیوں کی شادیاں نامی گرامی خاندانوں میں کیں اور پھر اپنے دامادوں کو ان کے سیاسی اور دنیاوی مقاموں تک پہنچنے میں مدد دی۔ ان کے ایک داماد انور سیف اللہ وفاقی وزیر رہے، دوسرے داماد صوبائی وزیر عرفان اللہ مروت، تیسرے داماد سابق صوبائی سیکریٹری صحت سلیم خان، چوتھے داماد ڈاکٹر ظفر درانی اور پانچویں داماد بینکر ناصر درانی ہیں۔ ان کے بیٹے کا نام مامون اسحٰق خان ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ وہ کیا کرتا ہے۔

تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ غلام اسحٰق خان سی آئی اے کے تنخواہ دار تھے۔ انہوں نے ہر حکومت کے اکھاڑ پچھاڑ میں سی آئی اے کی ہدائیتوں پر عمل کیا اور بحیثیت وزیرِ خزانہ آئی ایم ایف کو نوازا اور درآمدات پر ڈیوٹیاں کم کرنے کی ایسی روایت قائم کی جو آج تک جاری ہے۔ اسی روایت کی وجہ سے قومی انڈسٹری کا بیڑہ غرق ہوا اور بیرونی مال کی ملک میں کھپت بڑھ گئ۔ 

جیسا کہ ان کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ان کا دورِ صدارت دو حکومتوں کو برطرف کرنے کی وجہ سے متنازع رہا ہے۔ اسی وجہ سے ہم انہیں ایک ایماندار شخص نہیں کہ سکتے۔ انہوں نے بھی خود غرضی کو اپنا شعار بنایا اور وہی کچھ کیا جس سے انہیں ذاتی فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

اگر غلام اسحٰق خان کی ملک کیلۓ خدمات پر غور کیا جاۓ تو سواۓ ایٹمی پروگرام کے جاری رکھنے کے ہمیں کوئی دوسری خدمت نظر نہیں آتی۔ ان کے وزارتِ خزانہ کے دور میں ملک کی معیشت ان کی وجہ سے نہیں بلکہ افغانستان کی جنگ کی وجہ سے اسی طرح مضبوط تھی جس طرح اب وزیرِ خزانہ اور وزيرِ اعظم شوکت عزیز کے دور میں911 کي وجہ سے ہے۔