ہمیں یاد ہے جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تو ہمارے ساتھ ہاکی کھیلنے والے آرمی کے لانس نائیک نے اپنی چھاؤنی کی ہاکی ٹیم کیساتھ ہماری کلب کا میچ کھیلنے انتظام کیا اور ہم ویک اینڈ پر کھاریاں چھاؤنی جا پہنچے۔ گیٹ پر آرمی کی گاڑی جسے ایڈم ڈاج کہتے تھے کھڑی تھی وہ ہمیں ہاکی گراؤنڈ میں لے گئی۔ ہماری ٹیم بیس سالہ نوجوانوں پر مشتمل اور وہ لوگ پکی عمر کے منجھے ہوئے کھلاڑی۔ میچ کے پہلے دس منٹ میں ہی آرمی کی ٹیم نے ہم پر چار پانچ گول داغ دیے۔ اس کے بعد انہوں نے ہمارے ساتھ بچوں کی طرح برتاؤ شروع کر دیا اور مزید گول کرنے کی بجائے گراؤنڈ میں ہم لوگوں کو گیند کے ارد گرد گھمانا شروع کر دیا۔ ہم لوگوں نے بڑی سبکی محسوس کی اور ہم سے ایک منچلے نے اس برتاؤ پر تاؤ میں آ کر ایک سپاہی کی ٹانگ پر ہاکی جڑ دی۔ پھر کیا تھا ساری آرمی کی ہاکی ہم پر پل پڑی اور ہمیں بھاگ کر جان بچانا پڑی۔

یہی کچھ آج کل ہماری کرکٹ ٹیم کیساتھ آسٹریلین کر رہے ہیں۔ پہلے ٹیسٹ میچ میں انہوں نے دونوں اننگز میں پانے والا ٹارگٹ دے کر ہمیں خوب نچایا اور ہم وہ میچ ہار گئے۔ دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں ہمارے وکٹ کیپر نے لاتعداد کیچ چھوڑے اور اسی کی بدولت مائیکل ہسی سینچری بنانے میں کامیاب ہوا۔ ان کے تیز باؤلر سڈل نے مائیکل کا خوب ساتھ دیا اور دو سو سے زیادہ گیندیں کھیل کر صرف اڑتیس رن بنائے۔ اس کے اس حوصلے اور سمجھداری کی سب نے داد دی۔ ہماری ٹیم کو ایک سو چھہتر رن کا آسان ٹارگٹ ملا اور ہماری ٹیم وہ بھی حاصل نہ کر سکی۔ ہماری ٹيم نے آسٹریلیا کے باؤلر کی انتہائی ذمہ دارانہ بیٹنگ سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا اور آخری تین کھلاڑی تو چوکے چھکے لگانے کے چکر میں آؤٹ ہو گئے۔

کپتان یوسف نے سچ کہا ہے کہ ہم لوگ ٹیسٹ کرکٹ کو بھی ٹونٹی ٹونٹی کی طرح کھیل رہے ہیں اور ہمیں اس ٹونٹی ٹونٹی کے انداز کو بدلنا ہو گا۔ اب بھلا کوئی عمر اکمل، عمر گل اور دانش کنیریا سے پوچھے کہ شریف آدمی تم آرام سے نہیں کھیل سکتے تھے۔ اگر ہماری ٹيم ٹپ ٹپ بھی کرتی رہتی تو ڈیڑھ دن میں باقی بچ جانے والے رن ویسے ہی بن جاتے۔ مگر کیا کریں ہم ابھی کرکٹ میں بچے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ساتھ بچوں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔