12 اکتوبر 1999 حصہ دوئم

بارہ اکتوبر کے ڈرامے کو پرویز صاحب نے دو بابوں میں سمیٹا ہے۔ پہلے باب کا نام انہوں نے سازش اور دوسرے حصے کا نام انہوں نے کاؤنٹرکوپ یعنی جوابی حملہ رکھا ہے۔

حصہ دوئم میں انہوں منٹ منٹ کی روداد سنائی ہے کہ کس طرح ان کے حلیف افسروں نے نواز شریف کو ہٹانے ميں ان کی مدد کی اور کس طرح ان کے حریفوں نے اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی پرویز صاحب نےاپنے سارے حلیف افسروں کو ان کے ناموں سے پکارا ہےاور ان کی ستائش بھی کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرویز صاحب نے حریف افسروں کی تضحیک کی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ کیسے انہوں نے ہتھیار ڈالے۔ ان ہتھیار ڈالنے کے ذکر نے پاک فوج کے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کی یاد تازہ کردی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب انڈیا کے آگے ہتھیار ڈالے گۓ اور اب ایک جنرل نے کرنل کے آگے ہتھیار ڈالے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ پہلا واقع ٹی وی پر دکھایا گیا اور دوسرے واقعہ کی وڈیو نہیں بنائی گئ۔

پرائم منسٹرہاؤس کا نقشہ انہوں نے کھینچتے ہوۓ بتایا ہے کہ جب گارڈز نے ہتھیار ڈال دیۓ تو پھر حریف افسر بھی ہار مان گۓ۔ اس ہار سے پہلے ان حریفوں نے اپنی سی کوشش ضرور کی بغاوت کو کچلنے کی مگر ان کا بس نہ چلا۔

پرویز صاحب نے ان دو لیفٹینیٹ کرنلوں کا ذکر بڑی اپنائیت سے کیا ہے جنہوں نے پرائم منسٹر ہاؤس، پریزیڈنٹ ہاؤس اور ٹی وی سٹيشن پر قبضہ کیا۔ امید ہے ان افسروں کو بعد میں پرویز صاحب نے خوب نوازا ہوگا۔

پرویز صاحب نے اپنے ایک عزیز جنرل شاہد عزیز کا بھی ذکر کیا ہے جو اس وقت  ڈائرکٹر جنرل آف ملڑی آپریشنز تھے اور ان کی مدد کے بغیر شائد پرویز صاحب کامیاب نہ ہوتے۔ ان کی گھر سے جی ایچ کیو کی طرف روانگی کے وقت ان کے پڑوسی یعنی جنرل ضیاء الدین کی بیوی کے مٹھائی بانٹنے کا ذکر ایک اور تضحیک کا پہلو لۓ ہوۓ ہے۔

پرویز صاحب کے بقول آرمی نے بڑی پلاننگ سے سارا آپریشن کیا اور خدا کا شکر ہے کہ سارا قبضہ کسی خون خرابے کے بغیر انجام پایا۔ پرویز صاحب نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی آپریشن کی تفصیلات بیان کی ہیں مگر سرحد اور بلوچستان کا ذکر نہیں کیا۔ ایک آدھ موقعوں پر لگتا تھا کہ شائد گولی چل جاۓ اور بقول پرویز صاحب کے اس میں نواز شریف اور جنرل ضیاءالدین بٹ سمیت کسی کی بھی جان جا سکتی تھی۔

شہباز شریف کے غسل خانے سے باہر نہ نکلنے اور انہیں زبردستی باہر نکال کر پھر ثابت کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ آرمی کے آگے کسی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پرویز صاحب اس بات کو گول بھی کرسکتے تھے مگر شائد وہ تضحيک کا کوئی موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔

 سیف الرحمٰن کے رونے اور چلانے کا بتا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ یہ وہی آدمی ہے جو جب نیب کا چیف تھا تو اس نے اپنے مخالفوں کو ناکوں چنے چبواۓ اور اب جب اس کا برا وقت آیا تو وہ  بچوں کی طرح رونے لگا۔ یہ الگ بات ہے کہ پرویز صاحب بھی نیب سے وہی کام لے رہے ہیں جو نواز شریف نے سیف الرحمٰن کے ذریعے لیا۔

اب حریفوں کا کیا حشر ہوا اس بارے میں پرویز صاحب خاموش ہیں۔ حلیفوں کو کس کس طرح نوازا گیا یہ ہم سب پہلے ہی جانتے ہیں۔

آخر میں پرویز صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں اپنے ساتھی کی فوجی جیکٹ لے کر ٹی وی پر تقریر کی جس میں ان کے سول کپڑے ٹیبل کے پیچھے چھپا دیۓ گۓ۔ پھر یہ بھی بتاتے ہیں کہ پہلی تقریر انہوں نے خود لکھی اور بعد میں اپنے ساتھیوں کو دکھائی۔ اچھا ہوتا جو وہ اپنی تقریر کی کاپی کتاب میں چھاپ دیتے۔ اسی طرح پرویز صاحب کافی جگہوں پر کچھ ثبوتوں کی کاپیاں کتاب میں ڈال سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔