جاوید گوندل صاحب ہمارے مستقل قاری اور مہربان بھی ہیں۔ ان کے تبصرے بذات خود ایک پوسٹ ہوتے ہیں اور وہ بھی معلوماتی۔ یاسر عمران مرزا صاحب کی فرمائش پر انہوں نے جگے کی کہانی ایک تبصرے میں لکھی ہے جو ہم یہاں من و عن چھاپ رہے ہیں۔ تحریر ذرا لمبی ہے مگر دلچسپی برقرار رکھتی ہے۔

جگے جٹ کے کردار کا وہ خاصہ نہیں جو پنجاب یا موجودہ پاکستان کے دوسرے بہادر لوگوں کی داستانوں کا ہے۔ مگر جگا ایک سورما بیان کیا جاتا ہے جس نے امراء اور ریاست کے جبر سے تنگ آکر ڈاکوؤں کی زندگی اپنائی اور لوٹ مار کے سامان اور سونے زیور سے علاقے کے غریب لوگوں کی مدد کی ۔ جگے کی کہانی ایک اسیے فرد کی کہانی ہے جسے ڈاکو بننے پہ مجبور کردیا گیا۔ اور اسطرح کی کہانیاں پاکستان میں آج بھی عام ملتی ہیں۔ مسلمان اسے مسلمان سمجھ کر اس کی داستان گاتے ہیں، جن میں ابرارلحق، عالم لوہارمرحوم ، اسکا بیٹا عارف لوہار ، شوکت علی وغیرہ سبھی نے اسے گایا ہے ۔ جبکہ سکھ گانے والوں میں سے گورداس مان وغیرہ نے اسے خوب گایا ہے۔

جگا انیس سو ایک یا انیس دو میں موضع بُرج سنگھ والا ، تحصیل چنیوٹ ضلع قصور میں ایک سکھ جاٹ خاندان میں پیدا ہوا ، اسکا پورا نام جگت سنگھ تھا۔ باپ کا نام مکھن سنگھ جو اسکے جگت سنگھ (جگا جٹ) کی چھوٹی عمر میں مر گیا۔جگے کی پرورش اسکے چچا رُوپ سنگھ اور ماں بھاگن نے کی۔

جگے کے پیدا ہونے سے پہلے اسکے باپ مکھن سنگھ اور بھاگن کے چہ بچے پیدا ہوئے جو زندہ نہ رہے ۔ کہتے ہیں کہ مکھن سنگھ اور بھاگن قریب کے گاؤں میں ایک سکھ بزرگ سوڈھی اندر سنگھ کے پاس گئے اور منت مراد و نذر نیاز پیش کی۔ سوڈھی سنگھ نے انھیں ایک کالا بکرا خریدنے کی ہدایت کی اور کہا کہ نوازئیدہ بچے کو اسکی پیدائیش پہ کالے بکرے سے چھوا جائے۔ اور اسکا نام ج سے مت رکھنا ۔ مگر اسکا نام جگت سنگھ رکھنے کی وجہ سے کچھ دن بعد وہ کالا بکرا بیمار ہو گیااور مر گیا ۔ بہر حال یہ سکھوں کے عقیدے اور داستان گویوں کی باتیں ہیں۔جن کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر انھیں بیان کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی ہمارے گلوکار ایک ایسے سورما کی داستان گاتے ہیں، جبکہ جگے کے بارے میں ہمارے گلوکاروں کو شاید جگے جٹ کے سب حالات زندگی کا علم نہ ہو ۔ الغرض ،

جگا جمیا فجر دی بانگے
لوڈھے ویلے کھیڈ دا فِرے
جگہ جمیا تے ملن وداہایاں
وڈا ہوکے ڈاکے ماردا
جگے ماریا ٭لائل پور ڈاکہ
تاراں کھڑکھ گیاں
٭موجودہ فیصل آباد

ساتویں نمبر پہ جگت سنگھ یعنی جگا ہوا اور اسکے بہت لاڈ اٹھائے گئے۔جگے کی ملکیت میں دس مربع یعنی دوسو پچاس ایکڑ زمین تھی۔ اور بے جا لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا تھا اور وہ انتہائی خود سر ہو گیا تھا۔ جگے کا باپ مکھن سنگھ مر چکا تھا۔ اور وہ اپنے چچا روپ سنگھ اور اپنی مان بھاگن کی زیر نگرانی پرورش پا رہا تھا۔ ایک دن اسنے بہت سا کماد کاٹ کے گنے اپنے دوستوں میں بانٹ دئیے جس پہ اسکے چچا روپ سنگھ نے اسے خوب پیٹا اور جس پہ جگے نے رات کے وقت اپنے چچا کے کنوئیں پہ ساری ٹنڈیں کھول کر کنوئیں میں پھیک دیں۔ کہتے ہیں اسکے چچا نے اسکے خلاف پولیس میں شکایت درج کروانی چاہی تو اسکے شریکوں نے اسے یاد کروایا کہ اسکا نام جگا بھی تو اسکے چچا روپ سنگھ نے رکھا تھا شریکوں کے طعنوں سے اسکا چچا روپ سنگھ پولیس میں اسکی شکائت کروانے سے باز رہا۔

جگے کے گآؤں برج سنگھ والا میں زیادہ تر مسلمان تیلی رہتے تھے جبکہ سترہ یا اٹھارہ سدھو جٹ خاندان بھی آباد تھے اور سبھی ایک دوسرے کا مذھبی احترام کرتے تھے۔ جگا بچپن سے ہی اس زمانے کے رواج کے مطابق اکھاڑے جاتا تھا اور مسلمان خاندان کا سوہن تیلی اسکے بچپن سے ہی اسکا دوست تھا اور سوہن تیلی نے جگے کا ساتھ اسکی موت تک دیا اور خود بھی مارا گیا۔

اسی لئیے لوک گیت میں جگے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے۔۔

جگے جٹ دا جانگیہ پٹ دا
کلی اُتے ٹنگا رہ گیا

جگے کی شادی تلونڈی نامی گاؤں میں اندر کور سے ہوئی اور اسمیں سے جگے کی واحد اولاد ایک بیٹی گابو نام کی جس کی اسی سال کی عمر ہے اور مشرقی پنجاب مکتاثر میں لمبی کے نزدیک وان والا گاؤں میں زندہ ہے۔

انگریزی دور میں جگے کی طرح سرشت فطرت کے لوگوں کے بارے میں انگریز حکومت کے بنیادی مخبر پٹواری، نمبردار، تھانیدار ، سفید پوش، ذیلدار وغیرہ معلومات اکھٹی کرتے رہتے تھے اور انھیں کسی نہ کسی بہانے سے انگریز حکومت کی طرف سے مقدمات میں الجھا لیتے تھے تانکہ وہ بلیک میل ہو کر شرارت سے باز رہیں۔ جگا درمیانی قامت اور مضبوط جسم کا گورے رنگ کا جوان تھا۔ ایک دن جگا پٹواری کے پاس اپنی زمینوں کا فرد لینے کے لئیے گیا اور جگا پٹواری سے عزت تکریم سے پیش نہ آیا تو پٹواری نے اسے فرد دینے سے ٹال دیا جس پہ جگے نہ اس کی دھلائی کر دی اور پٹواری سے فرد لے کر ہی ٹلا ۔ اس واقعے نے جہاں انگریز سرکار کی نظروں میں اسے شرپسند بنا دیا وہیں عام عوام نے اسے ہیرو سمجھ لیا۔

کچے پُلاں تے لڑائیاں ہوئیاں
چھویاں دے گُھنڈ مڑ گئے

یہ کچا پُل جگے کے گاؤں اور اسکے سسرالی گاؤں تلونڈی کے بیچ میں تھا جسے بہاروالا نکئی اپنے استعمال میں لاتے تھے انکے رشتے دار مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سسرالی رشتے دار تھے اور بہت اکھڑ اور شیطان لوگ تھے انہوں نے ایک دن جب جگا اپنے گھوڑے پہ سوار وہاں سے گزر رہا تھا اسکے گھوڑے کو ڈانگ ماری جس سے وہ گھوڑے سمیت الٹ گیا ۔ نکئی پانچ یا چھ بھائی تھے جب کہ جگا اکیلا تھا مگر اسکے باوجود جگے نے ان کی خوب درگت بنائی ۔ جس کی وجہ سے بعد میں نکئی لاہور منتقل ہو گئے۔

جگے کی مشہور ہونے کی وجہ کل مؤکل جیلدار کی طرف سے جھوٹے مقدمے میں جگے کو چار سال کے لئیے جیل بیجھنا تھا جگا جب رہا ہوکر واپس اپنے گاؤں برج پہنچا تو ایک دن بھائی پھیرو میں وہی جیلدار اور انسپکٹر اصغر علی جو آپس میں دوست تھے انہوں نے جگے کو تھانے لے جانا چاہا تو جگے نے انکار کردیا اور مزاحمت کی جس میں کچھ اور لوگ بھی شامل ہوگئے جن میں سے کاواں گاؤں کے قہر سنگھ اور محل سنگھ اور ججال گاؤں کا دُلا سنگھ کے نام نمایاں ہیں۔ بعد میں دُلا سنگھ نے جگے کو اپنا دھرم پُتر بنا لیا ۔ کچھ عرصے بعد دلا سنگھ اور اسکے خاندان نے اپنے وقت کامشہور قتل عام کیا جس میں آٹھ افراد قتل ہوئے جس کی پاداش میں دلا سنگھ وغیرہ پھانسی پہ لٹکا دئیے گئے۔ اس دن اس نے تھانے جانے سے انکار اور مزاحمت کرنے کی وجہ سے ڈاکوؤں کی زندگی اپنا لی جس کا آغاز ایک سپاہی کی سرکاری رائفل اور اچارکے گاؤں کے آتما سنگھ کی رائفل چھین کر کیا۔

جگے کا پہلا ڈاکہ گھمیاری گاؤں کے کچھ سناروں کے گھر تھا۔ گھمیاری قصور اور لاہور اضلاع کے سنگم پہ واقع ہے۔ جگے کے ساتھ اس ڈاکے میں جھنڈا سنگھ بقمام نرمل گاؤں اور ٹھاکر سنگھ منڈیالی شامل تھے۔ انہوں نے سنیاروں کے گھروں سے سارا سونا لوٹ لیا اور غریب لوگوں کو سود اور بیاج پہ دئیے گئے روپوؤں کے تمام بہی کھاتے آگ میں جلا دئیے۔ جس سے سو غریب لوگوں کی جان سود در سود سے چھوٹی ۔ بعد میں انہوں نے جھنڈا سنگھ کے کوئیں پہ سونے کا حصہ کیا جس کا وزن تقریبا آدھ سیر تھا۔ اس نے نئے ساتھی اپنے ساتھ ملائے جن میں بانٹا سنگھ ، جگے کے بچپن کا مسلمان دوست سوہنا تیلی ، لالُو نائی جو ایک آنکھ سے کانا تھا مگر کھانے پکانے میں ماہر تھا ، بھولو اور باوا شامل تھے ۔
جگا کسی جگہ ڈاکہ ڈالنے سے قبل پولیس کو پیغام بیھج دیا کرتا کہ فلاں جگہ ڈاکہ مارنے جارہا ہے تآنکہ بعد میں پولیس بے گناہ لوگوں کو تنگ نہ کرے۔

جگا انسپکٹر اصغر علی کا کچھ نہ بگاڑ سکا وہ جگے کی موت تک اسی تھانے میں ڈیوٹی پہ رہا ۔ جگے کو علم ھو گیا تھا کہ ایک ڈاکو کی طرح اسکی زندگی تھوڑی رہ گئی ہے اس نے کاواں نامی گاؤں کے اپنے ساتھی خیر سنگھ کے سب سے چھوٹے بھائی کے بیٹے کے ساتھ اپنی بیٹي کی منگنی کر دی اور سارا سونا اور جواہرات وغیرہ اسے دان کر دئیے۔

ایک دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سدھیر کے گاؤں میں ملنگی کے گھر گیا اور اسنے لالو نائی کو سب کے لئے کھانا بنانے کا کہا۔ لالو نائی کا گاؤں لاکھو کے نزدیک ہی تھا۔ لالو نائی نے اپنے پانچ بھائیوں سے کہا کہ وہ شراب اور کھانا لے کر پہنچ جائیں۔ لالو اور اسکے بھائیوں نے شراب کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا جب کہ ملنگی کی ماں اسی طرح خوش تھی کہ جس طرح دوسال کے بعد اسکا بیٹا ملنگی لوٹ آیا ہو ۔ جگے کا جگری دوست سوہنا تیلی اپنے دوستوں کو ملنے نزدیک کہیں گیا ہوا تھا۔ جگے اور بانٹے نے کھانا کھا کر خوب شراب پی۔ شراب کے نشے میں دھت بوڑھ (بڑ) کے نیچے ایک بڑی چارپائی میں گرمیوں کی دوپہر کو لیٹے ہوئے تھے کہ لالو نائی اور اسکے بھائیوں نے ان پہ فائر کھول دیا۔ سوہنا تیلی فائروں کی آواز سن کر پلٹا اور چاہا کی لالو نائی اور اسکے بھائیوں کا مقابلہ کرے کہ اسے کمر کی طرف سے فائر مار کر لالو نائی نے ہلاک کر دیا

جگا وڈیا بوڑھ دی چھاویں
نو من ریت بھج گئی
پُرنا
نائیاں نے وڈ چھڈیا
جگا سورما
جگے کی موت نے سارے علاقے کو صدمے اور ہراس میں لے لیا۔ لالو نائی کو حکومت نے دس مربعے زمین اور ایک گھوڑی انعام میں دی ۔ کچھ وقت بعد لالو نائی کسی دوسرے مقدمے مین جیل گیا تو وہاں بند قیدیوں نے اس کی اسقدر پٹائی کی کہ وہ وہیں مر گیا۔
جگا صرف انتیس سال زندہ رہا اور اسکے ڈاکو بننے کی زندگی محض تین ماہ پہ محیط ہے۔

ساری تفصل اس لئیے بیان کر دی ہے کہ جگا پاکستان کے گویوں کا ہیرو کیسے بن گیا ؟ کیا وہ اس کا حقدار تھا ؟ یا نہیں۔؟ یہ فیصلہ آپ سب پہ چھوڑتا ہوں۔

نوٹ۔ جملہ تفضیلات میرے مسلمان ہونے اور جگے کے سکھ ہونے کی وجہ سے بدلی نہیں جاسکتیں اسمیں کوئی مذھبی تعصب شامل نہیں مشرقی پنجاب کے سکھ بھی انھیں کم و بیش یوں ہی بیان کرتے ہیں۔

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین