معاشي ترقي کا احياء

پرويز صاحب کہتےہيں کہ 1999 کا ٹاپ ايجينڈا تھا پاکستان کي اکانومي کو سنبھالنا۔ ان کے بقول بنک اور دوسرے مالياتي ادارے اقربا پروري کا شکار ہوچکے تھے۔ پاکستان کا پبلک سيکٹر يعني واپڈا، کے اي ايس سي، ريلوے، پاکستان سٹيل ملز، پاکستان نيشنل شپنگ کارپوريشن، پي آئي اے، کاٹن ايکسپورٹ کارپوريشن اور رائس ايکسپورٹ کارپوريشن کے ادارے تباہ ہوچکے تھے۔ تجارتي خسارہ بڑھتا جارہا تھا، فارن ايکسچينج کي آمد کم ہورہي تھي۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 1988 اور 1999 کے درميان 20 بلين سے 39 بلين ڈالر ہوچکا تھا۔ غربت 18 فيصد سے 39 فھصد ہوچکي تھي۔

[پرویز صاحب نے یہ ماننے سے گریز کیا ہے کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ ان کے دور میں بھی بڑھا ہے بیشک یہ پہلے والی رفتار سے کم ہے۔ پرویز صاحب کے دور میں غربت 39 فیصد سے 45 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ اقربا پروری کا اب بھی وہی حال ہے۔ ترقی میں چلنے والے ادارے غیرملکی فرموں کو بیچ کر نوآبادیاتی نظام کی بنیاد ڈالی جارہی ہے]۔

پرويز صاحب نے اکنانومي کو درست کرنے کا بيڑہ اٹھايا اور اپني ٹيم کي مدد سے پلان بنايا۔ پرويز صاحب کے بقول ان کے مشيروں نے انہيں يہ کہ کر ڈرايا کہ وہ اکانومي کي بہتري کيلۓ اگر مشکل فيصلے کريں گے تو ان کا سياسي مستقبل داؤ پر لگ جاۓ گا۔ مگر پرويز صاحب نے کسي کي پرواہ نہ کي اور مندرجہ ذيل چار نقاط پر عمل کرنے کا تہيہ کيا۔

چھوٹي صنعتوں کي بحالي

بنيادي ڈہانچے کو تبديل کرکے چھوٹي صنعتوں کو تباہي سے بچانا

معاشی نظام کي بہتری

غربت دور کرنا

ان چاروں اہداف کا تعلق آپس میں اتنا گہرا ہے کہ تمام ساتھ ساتھ ہي تکميل پاسکتے ہيں۔ پرويز صاحب کہتے ہيں کہ شروع کے چند سال ہمارے لۓ اچھے نہيں تھے اور ہماري اکانومي کو کافي جھٹکے لگے۔ اس دوران قحط بھي پڑا اور انڈيا کي فوج کا سرحد پر اجتماع بھي اکانومي پر بوجھ بنا۔

[يہاں پرويز صاحب کو بات گھما پھرا کر کرنے کي ضرورت نہيں تھي سيدھي بات کرتے کہ 911 کے واقعے کي مدد کے بغير ہم اکانومي کو بہتر نہيں بنا سکتے تھے]۔

پرويز صاحب لکھتے ہيں کہ انہوں نے ورلڈ بنک کے سابقہ عہديداروں سے مدد لي يعني انہيں نوکري پر رکھا ۔ سٹيٹ بنک نے بھي سود بيس فيصد سے کم کرکے پانچ فيصد کرديا۔ مشينري کي برآمدات پر ڈيوٹياں کم کيں، پاکستاني روپے کي ڈالر کے ساتھ شرح تبادلہ ايک رکھي۔

[پرویز صاحب نے غیرملکی اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ماہروں کی خدمات حاصل کرکے کوئی نیا کام نہیں کیا۔ ہر مقروض ملک کو قرض لینے والے اداروں کے لوگوں کو ملازم رکھنا پڑتا ہے تاکہ ان کا قرض ڈوبنے نہ پاۓ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ڈکٹیٹر کے دور میں آئی ایم ایف یا عالمی بنک کے پاکستانی ملازموں کو وزیرِ خزانہ یا خزانے کے مشیر کی نوکریاں دی گئیں تاکہ وہ پاکستانی حکومت کو اپنی مرضی کیمطابق فیصلے کرنے پر مجبور کرسکیں۔ پرویز صاحب نے تو اس دفعہ ایک عالمی بنکار شوکت عزیز کو وزارتِ خزانہ کیساتھ ساتھ ملک کا اعلٰی عہدہ دے کر آئی ایم ایف کے کام مزید آسان کردیۓ ہیں]۔

سب سے مشکل فيصلہ آئي ايم ايف سے معاملہ کرنے کا تھا۔ اب تک ہماري حکومتيں آئي ايم ايف کے قرضوں کو ٹھيک طرح استعمال نہيں کرپائي تھيں اور اس طرح ملک پر قرضے بڑھتے گۓ۔ پرويزصاحب لکھتے ہيں کہ انہوں نے آئي ايم ايف سے سارے قرضے ري شيڈول کۓ اور زيادہ سود والے قرضوں کو تھوڑے سود والے قرضوں ميں بدلا۔ پھر ملک کو اس جگہ پر لے آۓ جہاں آئي ايم ايف کي ہدايات پر چلنے کي بجاۓ ہم آئي ايم ايف کو ہدايات دينے لگے۔  قرضوں کو تيس سال کي بنياد پر بدلا اور کوشش کي کہ ہم اپنے بجٹ کا جو 66 فيصد قرضوں کے سود کي ادائيگي پر خرچ کرتے ہيں اسے کم کرکے 22-25 فيصد پر لے آئيں۔

[پرويز صاحب يہ ساري باتيں جو کررہے ہيں صرف زباني حد تک ٹھيک ہيں جبکہ ملک کے اکثرماہرِ معاشيات اس بات پر متفق ہيں کہ ملک پر قرض بڑھا ہي ہے کم نہيں ہوا۔ درآمدات پر ڈيوٹياں کم کرکے غيروں کو نوازا گيا ہے اور اپنے ملک کي صنعت کا بيڑہ غرق کيا گيا ہے]۔

پرويز صاحب احتساب کے نظام کے بارے ميں بھي لکھتے ہيں کہ انہوں نے يہ محکمہ کرپشن کم کرنے کيلۓ فعال کيا اور بناں تفريق کے قرض نادہنگان کو پکڑا۔

[ہم سب جانتے ہيں کہ پوویز صاحب کي اس بات ميں بھي وزن نہيں ہے کيونکہ احتساب کا ادارہ سياسي مقاصد کيلۓ استعمال ہوا اور اس نے صرف مخالفين کو پکڑا اور حکومتي عہديداروں کو چھوڑا ہي نہيں بلکہ ان کے قرضے معاف کرانے والوں کو بھي کچھ نہ کہا۔ پرویز صاحب نے قرض خوروں کو وزاتوں سے نوازدیا یعنی گیدڑوں کو خربوزوں کی رکھوالی پر بٹھا دیا]۔

پہلے دوتين سال ميں جب اکانومي خراب ہي رہي تو لوگوں نے باتيں بنانا شروع کرديں۔ اس کے بعد [ہمارے خيال ميں 911 کي برکتوں سے] جب اکانومي ٹھيک ہونے لگي تو پھر لوگ کہنے لگے کہ اس اکانومي سے نہ تو بيروزگاري کم ہوئي اور نہ ہي غربت۔ اب غربت اور بيروزگاري دونوں کم ہونا شروع ہوچکي ہيں۔ يہ سچ ہے کہ تيز ترقي کچھ بري چيزيں بھي ساتھ لاتي ہے ان ميں سے ايک دولت کي تفريق ميں اضافہ ہے ليکن صحيح پاليسيوں سے اس تفريق کو بھي کم کيا جا سکتا ہے۔

[اس کا مطلب ہوا کہ پرویز صاحب دولت کی غلط تفریق کو اکانومی کی ترقی مانتے ہیں یعنی جب غریب مزید غریب ہونے لگیںاور امیر امیر تر، تو اس کا مطلب ہے ملک ترقی کررہا ہے۔ ہمیں تو یہ دلیل گھٹیا ہی لگتی ہے پتہ نہیں یہ کس کے چھوٹے ذہن کی پیداوار ہے]۔

پرويز صاحب کے پوچھنے پر بتايا گيا کہ قرضوں کے سود کي ادائيگي کے بعد ہمارا بجٹ سب سے زيادہ حکومت اور دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ہماري آمدني کا ذريعہ ٹيکس ہيں۔ پرويز صاحب نے دفاع کے بجٹ کو نہ بڑھانے کا فيصلہ کيا اور خسارے ميں جانے والے محکموں کو منافع ميں بدل ديا۔

جب پرويز صاحب نے اخراجات ميں کٹوتي کردي تو انہوں نے آمدني بڑھانے کي طرف دھيان ديا۔ پاکستان کي قوم ٹيکس دينے کي عادي نہيں ہے يہ پرويز صاحب جانتے تھے۔ پرويز صاحب کي حکومت نے جب چھوٹے بڑے کاروباري اداروں سے ٹيکس اکٹھے کرنے شروع کۓ تو وہ حکومت کے خلاف کھڑے ہوگۓ۔ پرويز صاحب پر ٹيکس ختم کرنے کا دباؤ بڑھايا گيا مگر انہوں نے ٹيکس کم نہ کۓ۔ آخرکار حکومت نے کچھ مراعات دے کر پرائيويٹ اداروں کو ٹيکس دينے پر راضي کرليا۔ اس طرح حکومت نے خسارے کو 8 فيصد سے کم کرکے 4 فيصد کرليا اور ريوينو 302 بلين سے 700 بلين ہوگيا۔ اس آمدني سے حکومت نے ترقياتي پروگرام شروع کۓ اور ترقياتي کاموں کے فنڈ تين سو فصد بڑھا ديۓ۔

[پرویز صاحب نے بھی اپنے پیش روؤں کی طرح ذراعت پر ٹیکس لگانے سے گریز کیا کیونکہ ان کی حکومت میں بھی جاگیر دار شامل ہوگۓ اور وہ ان جاگیرداروں کی مخالف مول لینے کی طاقت نہیں رکھتے تھے]۔

ہمارا سب سے بڑا خرچہ بيروني قرضوں پر سود کي ادائيگي تھي۔ پھر ہماری برآمدات کم تھيں جنہيں پرويز صاحب نے بڑھايا۔ تجارتي خسارے کو کم کرنے کيلۓ حکومت درآمدات تو کم کر نہيں سکتي تھي اس لۓ برآمدات کو بڑھايا گيا۔ درآمدات ميں سب سے زيادہ تيل تھا جس کي قيمت ہمارے کنٹرول ميں نہيں تھي اس کے علاوہ ہم چاۓ اور تيل درآمد کررہے تھے۔ ہم صرف اپنے خسارے کوکم کرسکتے تھے وہ ہم نے کيا۔

حيران کن طور پر 911 کا واقعہ پاکستان کي اکانومي کو بڑھانے کا سبب بنا۔ حکومت نے دہشت گردي کيخلاف اتحاديوں کا ساتھ دينے کا وعدہ کرليا اور ساتھ دينےکي وجہ سے ہم نے پيرس کلب کي ہمدردي حاصل کرلي  اور اسطرح سارا پيکيج جو ہميں ملا اس کي وجہ سے ہمارا خسارہ پانچ بلين ڈالر سے دو بلين ڈالر ہوگيا۔

[اس کا مطلب ہوا کہ پرویز صاحب یہ مانتے ہیں کہ پاکستان کی اکانومی کے اچھا ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کو کوششیں نہیں بلکہ 911 کا ظہور ہے۔ لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیۓ کہ ہمیں یہ صلہ یوٹرن کے عوض ملا جسے ہم نے “سب سے پہلے پاکستان” کا نام دے دیا]۔

انہي تبديليوں نے ترقي کي بنياد رکھي ليکن ہم نے آمدني بھي بڑھانے کے طريقے سوچنے شروع کرديۓ۔ ہم نے برآمدات بڑھائيں اور ہم نے ايکسپورٹ پروموشن بيورو کو دوبارہ فعال بنايا۔

بيروني سرمايہ کاري تقريباً ختم ہوچکي تھي۔ چائنہ کے وزيرِ اعظم نے پرويز صاحب کي رہنمائي کي اور انہيںاکانومي کو بہتر بنانے کيلۓ بہت ساري تجاويز ديں اور بيروني سرمايہ کاري بڑھانے کو کہا۔ بيروني سرمايہ کار سرمايہ لگانے سے پہلے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ديکھتے ہيں۔ پرويز صاحب نے ذاتي طور پر ذرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کي ٹھان لي۔ سب سے پہلے صنعتوں کي نجکاري کا سوچا اور پھر سرمايہ کاري کے اصول و ضوابط بھي بناۓ۔ ہم نے بہت بڑي کاميابي حاصل کي اور ہمارے ذرِ مبادلہ کے ذخائر 1999 سے پانچ سو فيصد زيادہ ہوگۓ۔ پرويز صاحب نے ايک جوان اور جوشيلہ وزيرِ سرمايہ کاري چنا اور بہت سارے سرمايہ کاروں نے پاکستان کي بڑھتي ہوئي اکانومي کو ديکھتے ہوۓ سرمايہ کاري کے بارے ميں سوچنا شروع کرديا۔

بيرونِ ملک مقيم پاکستانيوں کي پاکستان رقم زيادہ بھيجنے کي ہميں ضرورت تھي۔ اس کيلۓ پہلے تو ہم نے ہنڈي کے کاروبار پر پابندياں لگائيں پھر لوگوں تک پوسٹل سروس کي رسائي آسان کي۔ سب سے زيادہ فارن کرنسي پاکستان بھيجنے کي وجہ 911 کا واقعہ بنا۔  2005 ميں پاکستان ميں چار بلين ڈالر فارن کرنسي بھيجي گئ اور اسطرح ہماري بيروني ادائيگيوں ميں 2004 ميں 2 بلين ڈالر بچ گۓ۔

[یہاں بھی پرویز صاحب نے یہ ماننے میں جھجھک محسوس نہیں کی کہ اوورسیز پاکستانیوں کی پاکستان میں رقوم بھیجنے کی سب سے بڑی وجہ 911 کا واقعہ ہے نہ کہ حکومت کی پالیسیاں]۔

1999 ميں ہم بنک کرپسي کي حدوں کر چھو رہے تھے مگر اب ہمارا جي ڈي پي 65 بلين ڈالر سے 125 بلين ڈالر ہوچکا ہے۔ ہماري في کس سالانہ آمدني 460 ڈالر سے 800 سو ڈالر ہوچکي ہے۔ ہمارے ذرِ مبادلہ کے ذخائر 12.5 بلين ڈالر ہوچکے ہيں۔ برآمدات 2006 ميں 17 بلين ڈالر تک پہنچ چکي ہيں۔ ہماري درآمدات بھي بڑھ چکي ہيں۔ ہماري برآمدات ابھي بھي درآمدات سے کم ہيں مگر خوشي ہے کہ برآمدات نے ملک کي اکانومي پر مثبت اثرات چھوڑے ہيں۔ ہم ملک ميں مشينري برآمد کررہے ہيں۔

[پتہ نہيں پرويز صاحب کس رو سے برآمدات ميں اضافے کو ملک کيلۓ بہتري خيال کررہے ہيں۔ حالانکہ برآمدات بڑھنے سے مقامي صنعت کو نقصان ہوتا ہے۔ برآمدات ميں مشينري کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے اور زيادہ تر اشياۓ صرف کي چيزيں برآمد کي جارہي ہيں۔ اشياۓ صرف ميں بھي سب سے زيادہ اليکٹرونکس ہيں]۔

بجلي کي پيداوار کيلۓ ہم پانچ ڈيموں پر کام کررہے ہيں۔ تيل پر چلنے والے پاور پلانٹس کو گيس پر منتقل کر رہے ہيں۔ گيس کي وسطي رياستوں اور ايران سے انڈيا اور چين کو سپلائي پاکستان کے ذريعے ہوگي اسطرح پاکستان کو اس سے بھي منافع ملے گا۔

ٹيکسوں کي وصولي کا نظام ٹھيک ہوچکا ہے اور حکومت کي آمدني ايک بلين ڈالر سے چار بلين ڈالر تک پہنچ چکي ہے۔ کراچي کي سٹاک مارکيٹ ترقي کي راہ پر گامزن ہے اس کا انڈيکس 11500 پر پہنچ چکا ہے۔ کچھ کہتے ہيں کہ کراچي سٹاک ايکسچينج دنيا کي سب سے زيادہ منافع بخش ہے۔ ہم نے بيروني ملکوں ميں بھي بونڈ کي فروخت شروع کي ہے جس سے حکومت کو آمدني ہورہي ہے۔ اکانومي کي اس ترقي سے قيمتوں ميں بھي اضافہ ہوا ہے۔ عام لوگوں کي تنخواہيں بھي بڑھي ہيں اور اس طرح ان کي قوتِ خريد ميں بھي اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان ميں افراطِ ذر حکومت سمجھتي ہے کہ اس کي پاليسيوں کي وجہ سے دس فيصد سے کم ہوکر ساتھ فيصد ہوچکي ہے۔

[ماہر معاشیات حکومت کی اس دلیل کو بھی ماننے سے ہچکچارہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں افراطِ ذر کی شرح 15 سے 20 فیصد ہے]۔

تيل کي بڑھتي ہوئي قيمتوں کي وجہ سے ملک کي اکانومي پر منفي اثر پڑ رہا ہے۔ پرويز صاحب مانتے ہيں کہ توانائي کي قيمتوں ميں اضافہ چھوٹي صنعتوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور اس سے قيمتيں بھي بڑھتي ہيں۔ پرويز صاحب کو اس کي بہت فکر ہے۔

[پرويز صاحب کو صرف فکر ہي ہے مگر عملي طور پر کچھ نہيں کررہے۔ پرويز صاحب کو يہ تو معلوم ہے کہ توانائي کي قيمتوں ميں اضافہ اکانومي کيلۓ اچھا نہيں ہوتا مگر اب جب عالمي مارکيٹ ميں تيل کي قيمتيں کم ہوچکي ہيں حکومت پٹرول کي قيمتيں کم کرنے پر راضي نہيں ہورہي۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کي نيت ميں خلل ہے]۔

پرويزصاحب لکھتے ہيں کہ انہيں معلوم ہے کہ اکانومي کي بہتري کيلۓ اور لوگوں کي بہتر زندگي کيلۓ ان کي آمدني کوبڑھانا ہوگا اور اسکيلۓ روزگار کے مواقع پيدا کرنے ہوں گے، ذاتي کاروبار کي سہولت ديناہوگي، لوگوں کي ترقي کيلۓ سرمايہ کاري کرنا ہوگي اور سب سے زيادہ ضروري ہے صحت اور تعليم کيلۓ سرمايہ کاري۔ ان سب کيلۓ ضروري ہے کہ ہماري اکانومي مضبوط ہو۔

پرويز صاحب يہ بھي مانتے کہ ملک کي معيشت کا دارومدار دیہي علاقوں پر ہے۔ اسي لۓ انہوں نے نئي نہريں بچھانا شروع کي ہيں اور لوگوں کو آسان اقساط پر قرضوں کي سکيم بھي شروع کي ہے۔ ديہي علاقوں پر توجہ دينے سے ہماري ذرعی پيداوار ميں ااضافہ ہوا ہے اور پرويز صاحب اس اضافے پر مطمن بھي ہيں۔ پرويز صاحب کو سب سے زيادہ فکر تعليم يافتہ جوانوں کي بيروزگاري کي ہے۔ کمپيوٹر اور مواصلاتي ترقي نے تعليم يافتہ لوگوں کيلۓ روگار کے مواقع پيدا کيۓ ہيں۔ يہ سيکٹر بيروني سرمايہ کاري ميں سب سے آگے ہيں۔

1999 ميں صرف 39 شہروں ميں انٹرنيٹ کي سہولت تھي جو اب 2006 بڑھ کر 2000 ہوچکي ہے۔ مواصلاتي صنعت کي ترقي کاميابي کي ايک بہت بڑي مثال ہے۔ تين سالوں ميں  موبائل فون چھ لاکھ سے بڑھ کر تيس ملين ہوچکے ہيں۔ کمپيوٹر اور مواصلاتي صنعت نے بہت سارے لوگوں کو ملازمتيں مہيا کي ہيں۔

[مگر ہم پرويز صاحب کي طرف سے انٹرنيٹ کي فراہمي اور موبائل فونوں کي زيادتي کو ملک ميں ترقي کا پيمانہ قرار نہيں دے سکتے۔ ہمارے خيال ميں تو انٹرنيٹ اور مواصلاتي صنعت صرف پاکستان ميں ہي نہيں بلکہ ساري دنيا ميں ترقي کرچکي ہے۔ يورپ تو اس کا استعمال سوچ سمجھ کر کر رہا ہے مگر ہم نے اسے نوجوانوں کے ہاتھوں ميں کھلا چھوڑ کر ان کي بربادي کا سامان پيدا کرديا ہے۔ انٹرنيٹ پر نہ حکومت کا کنٹرول ہے اور نہ ہي والدين کو اس کي سوجھ بوجھ ہے جس کي وجہ سے موجودہ نوجوان نسل انٹرنيٹ پر اپنا وقت فضول کاموں پر ضائع کررہي ہے۔ حکومت نے نوجوانوں کے بیروزگاری کے مسائل بھی حل کرنے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی اور یہی وجہ ہے کہ اب یہ پڑھے لکھے نوجوان چوری اور ڈکیتی کے پیشے اپنا رہے ہیں]۔

پرويز صاحب لکھتے ہيں کہ ايک اور سيکٹر پر بھي حکومت نے توجہ دي ہے اور وہ ہے تعمیرات کا کاروبار۔ نئی سڑکیں اور پل بناۓ جارہے ہیں۔ عمارتیں بن رہی ہیں۔ اس کي وجہ سے بھي لوگوں کو روزگار ملا ہے اور ملک پر اس کا اچھا اثر ہورہا ہے۔

[یہ الگ بات ہے کہ سڑکوں کے ٹھیکے اقربا پروری کی بنیاد پر دیۓ جارہے ہیں۔ سڑکوں کی تعمیر میں اتنے گھپلے ہورہے ہیں کہ ایک سڑک کئ کئ بار بنانی پڑ رہی ہے۔ ملک کے بڑے بڑے شہروں کی سڑکوں کو نکاسئ آب کے نظام کی بہتری کے نام پر اس طرح توڑا پھوڑا جارہا ہے کہ شہر کھنڈرات کا نمونہ پیش کررہےہیں]۔ 

آخر ميں پرويز صاحب کہتے ہيں کہ وہ اب بھي غربت ختم کرنے اور آمدني بڑھانے کي طرف مسلسل دھيان دے رہے ہيں۔ مضبوط اکانومي کي وجہ سے حکومت ترقياتي کاموں پر اب رقم سو ملين روپوں سے بڑھا کر تين سو بلين روپے کردي ہے۔

[پرويز صاحب نے ترقياتي کاموں کيلۓ رقم تو بیشک کئ سو فصد بڑھا دي ہے مگر اس پر کوئي چيک اينڈ بيلنس نہيں رکھا۔ پاکستان کي پراني روايات کي طرح اس رقم کا زيادہ تر حصہ وزيروں مشيروں کي جيبوں ميں جا رہا ہے]۔ 

[اس سارے باب ميں پرويز صاحب نے لفظوں اور نمبروں کے ہير پھير سے يہ ثابت کرنے کي کوشش کي ہے کہ پاکستان ترقي کي راہوں پر گامزن ہے اور ملک ميں موبائل فونوں کي بھرمار اس بات کا ثبوت ہے۔ ليکن پرويز صاحب نے کئي سارے حقائق کو عام قاري سے چھپا کر رکھا ہے۔ انہوں نے صرف ترقي پر بات کي ہے معاشرے کي محروميوں پر بات نہيں کي۔ ان کے دور ميں غربت کي لکير کے نيچے زندگي گزارنے والوں کي تعاد ميں اضافہ ہي ہوا ہے کمي نہيں۔ ان کے دور ميں اکانومي کي ترقي اور ملک ميں زرِ مبادلہ کے ذخائر ميں اضافہ ان کي کوششوں کي بجاۓ 911 اليون کے واقعہ کي بدولت ہے۔ 

اقرباء پروري کا اب بھي دور دورہ ہے اور جو کام پرويز صاحب نے اکانومي کو مضبوط کرنے کيلۓ شروع کۓ تھے جن ميں احتساب کا نظام اور قرض نا دہندگان سے قرضوں کي وصولي شامل تھي وہ سياست کي نظر ہوچکے ہيں۔ اس حکومت کے ريکارڈ تعداد ميں وزراء حکومت کي اس قلعي کو بھي کھول ديتے ہيں کہ حکومت نے حکومتي اخراجات ميں کمي کي۔ حکومت نے تعليم اور صحت پر زيادہ رقم خرچ کرنے کا وعدہ کيا مگر اس مد ميں بہت معمولي رقم کا اضافہ کيا۔ دفاعي بجٹ اب بھي آڈٹ سے ماوراء ہے اور کسي کو نہيں معلوم کہ کتني اور کہاں پر يہ رقم خرچ ہورہي ہے۔

ہم اگر اس باب کا نچوڑ نکاليں تو يہي کہيں گے کہ پرويز صاحب کے لفظوں کے ہير پھير سے لوگوں کا پيٹ نہيں بھرا جاسکا اور غربت اب بھي پاکستان کا نمر ايک مسٔلہ ہے۔ جب تک سرمايہ کاري کا فول پروف نظام قائم نہيں کيا جاتا اور سب کو برابري کے مواقع مہيا نہيں کۓ جاتے 911 کي مرہونِ منت اکانومي زيادہ دير تک قائم رہنے والي نہيں۔ سنا ہے آئي ايم ايف نے اب دباؤ ڈالنا شروع کرديا ہے کہ پاکستان اپني کرنسي کو مزيد ڈي ويليو کرے کيونکہ آئي ايم ايف کو اب شک ہونے لگا ہے کہ ملک ميں ترقي کي رفتار سست ہورہي ہے۔

پرويز صاحب بيشک کہتے رہيں کہ ان کے ہاتھ کرپشن سے پاک ہيں مگر وہ يہ نہ بھوليں کہ ان کي چھتري کے نيچے پلنے والے حکومتی لوگ جو بھي مال ہڑپ کررہے ہيں وہ انہي کے گناہوں ميں اضافہ کررہا ہے۔ پاکستاني قوم کو اس سے غرض نہيں کہ ان کا حکمران کرپشن سے پاک ہے ان کو اس سے غرض ہے کہ ان کے حکمران نے انہيں کرپشن سے پاک نظام ديا کہ نہيں۔ يہ وہي بات ہوئي کہ امام صاحب تو کسي حرام کاري ميں ملوث نہيں مگر وہ حراميوں کي جماعت کرانےسے گريز نہيں کرتے اور نہ ہي ان ميں سکت ہے کہ وہ کسي حرامي کو اپنے پيچھے نماز پڑھنے سے روک سکيں]۔