آج حکومت نے ججز کی تقرری کا نوٹیفکیشن واپس لے کر ایک دفعہ پھر ہزیمت اٹھائی ہے۔ وہی ہوا جو پہلے ہوتا آ رہا ہے یعنی ہر برائی صدر زرداری کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے اور ہر اچھائی وزیراعظم کے کھاتے میں۔ صدر کے احکامات پر عمل درآمد سپریم کورٹ نے نہیں کیا اور بعد میں وزیراعظم نے اسے واپس لیکر سپریم کورٹ کی مرضی کیمطابق ججوں کی تقرری میں ردوبدل کر دیا۔ جج رمدے صاحب کو ایک سال کیلیے ایڈہاک مقرر کر کے حکومت نے سپریم کورٹ کو خیرسگالی کا پیغام بھی دے دیا ہے۔

پتہ نہیں اس کے پیچھے کونسا راز چھپا ہوا ہے کہ حکومت پہلے طاقت کے دوسرے ستون سے پنگا لیتی ہے اور پھر پسپائی اختیار کر لیتی ہے۔ ہو سکتا ہے اس طرح حکومت یہ ٹیسٹ کرتی ہو کہ اس کی عوامی مقبولیت کتنی ہے اور حزب اختلاف میں کتنا دم ہے۔ ورنہ تو کوئی حکومت بار بار ہزیمت اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

لگتا ہے صدر زرداری نے جو نجومی اپنے مستقبل کا حال جاننے کیلیے رکھا ہوا ہے اس کا ستارہ گردش میں ہے کیونکہ اس کا ہر مشورہ الٹا پڑ رہا ہے۔ ہم تو صدر زرداری کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ نجومیوں کے چکر میں پڑنے کی بجائے عوام کو اپنا نجومی بنائیں اور ان کے جذبات دیکھ کر عوامی مقبولیت کے فیصلے کریں۔