بین الاقوامی تعلقات – حصہ دوئم

 وزیرِ اعظم من موہن سنگھھ سے میری پہلی ملاقات اقوامِ متحدہ کی نیویارک میں سربراہی کانفرنس کے دوران ہوئی، جب 24 ستمبر 2004 کو وہ میرے ہوٹل، مجھ سے ملاقات کرنے آۓ۔ یہ انتہائی خوشگوار ملاقات تھی۔ میں نے وزیرِ اعظم کو انتہائی تعمیری اور حقیقی انسان پایا، جنہیں پاکستان کے ساتھ دیرینہ تنازعات نمٹانے اور اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش تھی۔ ملاقات کے بعد مشترکہ بیان سے ظاہر ہوریا تھا کہ امن کا عمل آگے بڑھانے کی خواہش ہم دونوں کو ہے۔

من موہن سنگھ سے میری دوسری ملاقات ہوئی، جب پاکستان کی کرکٹ ٹيم بھارت کا دورہ کررہی تھی اور انہوں نے مجھے ایک میچ دیکھنے کیلۓ مدعو کیا۔ میں نے ان کی دعوت قبول کرلی اور 18 اپریل 2005 کو ایک روزہ میچ دیکھنے کیلۓ دہلی گیا۔ میں اجمیر شریف سے ہو کر گیا۔ یہ وہ زیارت تھی، جو میں آگرہ سربراہی ملاقات کے موقع پر کرنا چاہتا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ اک مبارک آغاز ہے۔

[بھارت نے کرکٹ ميچ ديکھنے کي دعوت دي نہيں بلکہ پرويز صاحب نے خود مانگ کر لي۔ ايک نيوز کانفرنس ميںاخبارنويسوں کے سوال کے جواب ميں جب پرويز صاحب نے کہا کہ اگر بھارت نے ميچ ديکھنے کي دعوت دي تو وہ ضرور جائيں گے۔ اس طرح من موہن سنگھھ کو پريس کاننفرنس ميں ايک سوال کے جواب ميں پرويز صاحب کو کرکٹ ميچ ديکھنے کي دعوت دينا پڑي]۔

18 اپریل 2005 کے دن کا آغاز کرکٹ میچ سے ہوا۔ بدقسمتی سے میرے میزبانوں کیلۓ یہ کھیل اچھا ثابت نہ ہوا، کیونکہ پاکستان کے اعلیٰ معیار کے بلے باز شاہد آفریدی نے بھارتیوں کی ہر گیند کو مارا، حتیٰ کہ اس کی بہت ساری گیندیں ہمارے سامنے آکر گریں۔ کرکٹ کے ایک عام شوقین کی طرح میں بھی اپنی نشست سے اٹھ کر نعرے لگانا اور تالیاں بجانا چاہتا تھا لیکن اپنے میزبانوں کے احترام میں، میں نے اپنے جوش و خروش پر قابو رکھا۔ میچ ختم ہونےسے پہلے ہم بات چیت کے لۓ روانہ ہوگۓ۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ میں وہ دلچسپ میچ دیکھنے کیلۓ واپس جانے کو بے تاب تھا اور ہماری آپس کی باضابطہ ملاقات کے دوران میں نے وزیرِ اعظم کو تجویز دی کہ ہم آخری گھنٹے میں میچ کا اختتام دیکھنے اور انعامات تقسیم کرنے کیلۓ واپس جائیں۔ حفاظت کے بارے میں ان کے تفکرات کے باوجود میں نے انہیں آمادہ کرلیا۔ اگرچہ ہماری بات چیت جاری تھی، لیکن میرا سٹاف مجھے کاغز کی پرچیوں پر کھیل کے بارے میں اور بھارت کی خراب کاکردگی کے بارے ميں اطلاعات دیتا رہا۔ میچ کے مقررہ وقت سے کہیں پہلے بھارت کی پوری ٹيم آؤٹ ہوگئ۔ اپنی مسرت کا اظہار کۓ بغیر، میں نے من موہن سنگھ کو مطلع کیا کہ بھارتی ٹيم کے بلے باز آؤٹ ہوگۓ ہیں اور اب سٹیٹیم دوبارہ واپس جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ “لڑکے پھر لڑکے ہوتے ہیں”، کچھ لوگ کہیں گے، لیکن ظاہر ہے کہ ایسا کہنے والے نہ تو کرکٹ جانتے ہیں اور نہ ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کی اہمیت۔

[پرويز صاحب کي مندرجہ بالا تحرير سے قاري يہ اندازہ آساني سے لگا سکتا ہے کہ بھارتيوں کو مزاکرات کي فکر تھي اور پرويز صاحب کو کرکٹ ميچ کي۔ من موہن سنگھھ بات چيت ميں اپنے ملک کي فکر ميں مگن ہوں گے اور پرويز صاحب کو ہر منٹ بعد ميچ کے سکور کي فکر پڑي تھي۔ يہ ہوتا ہے فرق ايک عالمي ليول کے ليڈر اور عام قسم کے ليڈر ميں۔ اس پيراگراف ميں پرويز صاحب نے يہ ثابت کرنے کي کوشش کي ہے کہ ہم پاکستاني بھارت اور پاکستان کے درميان کرکٹ ميچ کو جنگ کي طرح مانتے ہيں۔ يہ سوچ بھي ايک کمزور آدمي کي طرف اشارہ کررہي ہے جو ميدانِ جنگ ميں تو جيت نہ سکے اور کرکٹ جيسے ميچ ميں جيت کر اپنے دل کو تسلي دے لے]۔

اس کے باوجود ہماری باہمی بات چیت انتہائی تعمیری رہی۔ ہم نے کشمیر پر بھرپور تبادلہء خیال کیا۔ ہم دونوں نے اتفاق کیا کہ کشمیر کے مسٔلے کا حل ضروری ہے اور اس کا حل ڈبے سے باہر یا روایتی طریقوں سے ہٹ کر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ وزیرِ اعظم نے یہ ضرور کہا کہ وہ سرحدوں کی تبدیلی قبول نہیں کرسکتے اور میں نے کہا کہ میں لائن آف کنٹرول کو مستقل حل کے طر پر قبول نہیں کرسکتا۔ ہمیں ایسا حل تلاش کرنا ہوگا، جو دونوں حریفوں اور خصوصاً کشمیر کے عوام کو قبول ہو۔ یہ ملاقات ایک انتہائی مثبت مشترکہ اعلان پر ختم ہوئی، جسے وزیرِ اعظم نے ذرائع اہلاغ کے سامنے پڑھا۔ ہم نے امن کے عمل کو پوری ایمان داری اور سنجیدگی سے آگے بڑھاتے رہنے کا فیصلہ کیا۔

14 ستمبر 2002 کو وزیرِ اعظم من موہن سنگھھ نے مجھے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپنے ہوٹيل میں رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ یہ دعوت ایک ناسازگار ماحول ميں شروع ہوئی کیونکہ بھارتی، جنرل اسمبلی میں میرے اندازِ خطاب پر خوش نہیں تھے۔ میرے خیال میں وہ غیرضروری طور پر حساس ہورہے تھے۔ بات چیت میں کافی گرما گرمی ہوئی، غالباً میرے صاف ستھرے فوجی انداز کی وجہ سے۔ تقریباً تین گھنٹے کے تبادلہء خیال کے بعد کھانا لگایا گیا، لیکن ماحول کشیدہ تھا۔ کھانے کے بعد صورتحال میں بہتري پیدا ہوئی لیکن ہم نے ایک روکھا سوکھا سا اعلانیہ تیار کرلیا۔ ذرائع ابلاغ فوراً دونوں حریفوں کی اس کشیدہ کیفیت کو پہچان گۓ اور انہوں نے نتیجہ اخز کیا کہ ملاقات تسلی بخش نہیں تھی۔ اس کے باوجود میں نے من موہن سنگھھ کو پاکسان کے دورے کی دعوت دی، جسے انہوں نے فوراً قبول کرلیا۔ میں یہ صورتِ حال اس وقت جون 2006 میں لکھ رہا ہوں اور ہم اب بھی ان کی آمد کا انتظار کررہے ییں۔ بھارتی کرکٹ ٹيم نے اوائل 2006 میں پاکستان کا دوراہ کیا۔ اس وقت بھارتی وزیرِ اوعظم کو ایک موقع ملا تھا لیکن انہوں نے غالباً اس وجہ سے اسے ضائع کردیا کہ ممکن ہے بھارتی نوکرشاہی نے سوچا ہو کہ ہماری بات چیت بہت اہم ہے اور اسے کرکٹ جیسے غیرسنجیدہ کھیل کے ساتھھ نہیں ملانا چاہۓ۔ حالانکہ ہوا یہ کہ بھارت پانچ میں سے چار بین الاقوامی ایک روزہ میچ جیتا۔ وزیرِ اعظم من موہن سنگھھ ایک میچ دیکھھ سکتے تھے، جس میں غالباً بھارت جیتتا اور ہماری بازی برابر ہوجاتی۔

[پرويز صاحب نے بھارت کي اس سوچ کو کہ” بات چيت بہت اہم ہے اور کرکٹ ايک غيرسنجيدہ کھيل” بيان کرکے اپني ہي سبکي کي ہے۔ يہي ہمارا بھي نقطۂ نظر ہے کہ پرويز صاحب کي سوچ ايک عالمي ليڈر کے ليول کي نہيں بلکہ ايک عام سے لڑکے کي ہے جو کرکٹ کو ملک کے بارے ميں بات چيت کے مقابلے ميں اوليت ديتا ہے۔  من موہن سنگھھ نے کرکٹ ميچ ديکھنے کي پاکستان کي دعوت مسترد کرکے پرويز صاحب کو يہ باور کرايا کہ کرکٹ سے زيادہ اہم کام بھي ہيں اور وہ انہي کاموں کي مصروفيت کي وجہ سے کرکٹ ميچ نہيں ديکھھ سکتے۔ ايک پرويز صاحب ہيں جنہيں ملکي کاموں کي اہميت کا احساس ہي نہيں اور وہ دکھاوے کے کاموں پر زيادہ وقت ضائع کررہے ہيں۔ اب ان باتوں نے دنيا کے لوگوں پر يہ اثر چھوڑا ہوگا کہ پرويز صاحب واقعي ايک ڈکٹيٹر ہيں اور وہ اپنے ملک کے بارے ميں سنجيدہ نہيں ہيں]۔

بھارت کے ساتھھ اتنی پیچیدہ سفارت کاری کے مزید نتائج برآمد ہوۓ۔ ہمارے دوطرفہ تعلقات پہلے کبھی اتنے اچھے نہیں تھے۔ میں نے بار بار کہا  ہے کہ مسائل کو جوں کا توں رکھنے کے زمانے گزر چکے ہیں اور اب انہیں حل کرنے کا وقت ہے اور وقت ابھی اور فوری عمل کرنے کا ہے، کیونکہ ایسے لمحات بار بار نہیں آتے اور نہ زیادہ انتظار کرتے ہیں۔ ہم دو متوازی لکیروں پر چل رہے ہیں۔ ایک لکیر اعتماد پیدا کرنے والے اقدام ہیں اور دوسری مسٔلے حل کرنا ہے۔ ميں نے ہمیشہ اس بات کو فوقیت دی ہے کہ دونوں پر ساتھھ ساتھھ چلا جاۓ، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی اعتماد پیدا کرنے والے اقدام پر تیزرفتاری سے بڑھنا چاہتے ہیں اور مسائل کے حل پر رینگنا۔

ميں نے ابتدا میں وزیرِ اعظم من موہن سنگھھ ميں خلوص اور لچک کے جو آثار دیکھے تھے وہ اب ماند پڑتے نظر آرہے ہیں۔ میرے خیال میں بھارتی انتظامیہ، افسر شاہی، سفارت کار، خفیہ ادارے اور شاید فوج بھی ان پر حاوی ہوگئ ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا رہنما جو گھسے پٹے خیالات اور منجمد حالات سے نکلنا چاہتا ہو تو اس کے لۓ بے باک ہونا لازم ہے اور اسے انتظامیہ سے سبق لینے کی بجاۓ ان پر مسلط ہوجانا چاہۓ۔ میں اب بھی من موہن سنگھ کے ڈبے سے باہر کے حل کا انتظار کررہا ہوں۔ اس دوران میں نے کئ نۓ خیالات کا اظہار کیا ہے۔، ہم مسٔلہء کشمیر کے حل کے لۓ ان کے جواب یا جوابی تجاویز کے منتظر ہیں، کیونکہ مجھے پختہ یقین ہے کہ اس کے بغیر علاقے میں مستقل امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔

[ايک بار پھر پرويز صاحب اپني طرح سب کو ڈکٹيٹر ہي سمجھ رہے ہيں اور وہ يہ بھول رہے ہيں کہ بھارت ميں ايک جمہوري حکومت ہے اور من موہن سنگھھ ڈکٹيٹر کي طرح سارے فيصلے خود کرنے کا اختيار نہيں رکھتے۔ انہيں اپني کابينہ اور پارٹي کو ساتھ لے کرچلنا ہے اور فيصلے ملکر کرنے ہيں تاکہ وہ عوام کے سامنے سرخرو ہوسکيں۔ ايک پرويز صاحب ہيں جو فيصلے خود کرتے ہيں مگر اپنے آقاؤں کے اشاروں پر اور بعد ميں کابينہ کو بتاتے ہيں کہ انہوں نے يہ فيصلہ کيا ہے۔ يہ فرق ہوتا ہے ايک ڈکٹيٹرشپ اور جمہوري نظام ميں]۔

میں نے خود ڈبے سے باہر کا حل سوچنے ميں بہت سے دن گزارے ہیں۔ میری تجویز جو میرے خیال میں پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کے لۓ قابلِ قبول ہوسکتی ہے، یہ ہے کہ سب پارٹیاں چند قدم پیچھے چلی جائیں۔ اس تجویز کے چار عناصر ہیں جو مختصراً اس طرح ہیں:۔

1. کشمیر کے ان جغرافیائی علاقوں کا تعین، جو تصفیہ طلب ہیں۔ موجودہ پاکستانی علاقہ دو حصوں میں منقسم ہے، شمالی علاقہ جات اور کشمیر۔ ہندوستانی علاقہ تین حصوں میں ہے، جموں، سری نگر اور لداخ۔ آیا ان سب پر بات ہوگی یا نسلی، ثقافتی، سیاسی اور عسکری تحفظات کی وجہ سے ان میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ردوبدل بھی موضوعٓ گفتگو بنے گا۔

2. چنیدہ علاقہ یا علاقوں سے فوجیں ہٹا کر وہاں مسلح جدوجہدِ آزادی کو پابند کرکے دبایا جاۓ۔ اس سے کشمیریوں کو جو دونوں طرف کی قتل و غارت سے پریشان ہیں، سکون ملے گا۔

3. چنیدہ علاقہ یا علاقوں میں خودمختار حکومت کو متعارف کرایا جاۓ۔ کشمیریوں کو اپنے معاملات خود چلانے کی اجازت دی جاۓ، جس میں بین الاقوامی مداخلت نہ ہو اور جو مکمل آزادی بھی نہ ہو۔

4۔ سب سے اہم یہ کہ پاکستانی، بھارتی اور کشمیری اراکین پر مشتمل ایک طریقۂ کار عمل میں لایا جاۓ، جو خود مختار حکومت کی نگرانی کرے اور ایسے تمام مسائل کو بھی حل کرے، جو چنیدہ علاقوں میں مشترک ہوں اور خودمختار حکومت کے دائرہ عمل سے باہر ہوں۔

یہ مکمل طور پرمیرا ذاتی خیال ہے اور اس میں مزید اصلاح ہوسکتی ہے۔ عوام الناس میں اسے قبولیت حاصل کرنے کے لۓ اس مسٔلے میں ملوث تمام جماعتوں اور حکومتوں کو کوشش کرنی ہوگی۔

اب میں ایک اور ہمسایہ ملک افغانستان کے بارے میںکچھھ کہوں گا، جو نہ صرف اس علاقے بلکہ دنیا بھر میں کشیدگی کی ایک اور وجہ ہے۔ خشکی میں گھرے ہوۓ افغانستان کا دنیا تک رسائی کیلۓ پاکستان تک انحصار ہے۔ وسط ایشیائی جمہوریتیں بھی تجارتی سرگرمیوں کیلۓ دنیا کی طرف دیکھھ رہی ہیں۔ اگر افغانستان مستحکم ہو جاتا ہے اور اس کے راستے آزادانہ تجارتی نقل و حرکت شروع ہوجاتی ہے تو تمام علاقے کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔ پاکستان کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوگا، کیونکہ افغانستان اور افغانستان کے راستے تمام برآمدی اور درآمدی تجارت کا انحصار پاکستان کی سڑکوں، ریلوں اور بندرگاہوں پر ہوگا۔

مجھے پورا یقین ہے کہ پرامن، آزاد اور مکمل افغانستان نہ صرف پاسکتان، بلکہ اس علاقے اور تمام دنیا کے مفاد میں ہے۔ اس وجہ سے ہم بون معاہدے کے صدقِ دل سے حامی ہیں اور افغانستان میں وسیع پیمانے پر تعمیرِ نو کی تائید کرتے ہیں۔ ہم صدر حامد کرزئی کی جنگ سے تباہ شدہ اپنے ملک میں امن قائم کرنے اور جمہوری اقدار رائج کرنے کی پالسیسیوں کی حمایت کرتے ہیں، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف ہماری مشترکہ جنگ پوری قوت، ہم آہنگی اور تعاون سے لڑی جانی ہے۔

تاريخی طور پر پاکستان نے ہمیشہ عرب اور فلسطینی اغراض و مقاصد کی بھرپور طرف داری کی ہے۔ اسرائیل کے خلاف ہمارا طرزِ عمل جارحانہ رہا ہے۔ یہودیوں اور یہودی ریاست کیساتھھ ہر قسم کے رابطے ناپسندیدہ ار ممنوع رہے ہیں، فلسطین اور اسرائیل کے مسٔلے پر ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار رہے ہیں، حالانکہ ہم عرب نہیں ہیں اور چند مسلمان ممالک نے مع عرب ملکوں کے اسرائیل کو کسی نہ کسی حد تک تسلیم کرلیا ہے۔

[يہاں پر پرويز صاحب نے فلسطين کي حمايت کو ايک مسلمان کي حیثيت سے نہيں بلکہ عرب کي حیثيت سے ديکھنے کي کوشش کي ہے اور اس طرح مسلم امت کو چھوڑ کر لساني گروہ بندي کو ترجيح دي ہے جو ايک مسلمان ہونے کے ناطے درست نہيں ہے]۔

میں نے ہمیشہ یہ سوچا ہے کہ اسرائیل سے متعلق اس پالیسی سے ہمیں کیا فائدے ہوۓ ہیں؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کا قریب ترین اتحادی ہونے کے علاوہ انتہائی بااثر یہودیوں کا مکمل تعاون بھی حاصل ہے، جسے وہ پاکستان کے مفادات کیخلاف استعمال کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر مقصد یہ ہے ک فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں ان کی مدد کی جاۓ، تو میرے خیال ميں الگ تھلگ رہنے کی بجاۓ ہم بات چیت میں حصہ لے کر زیادہ موٓثر ثابت ہوسکتے ہیں۔

سرد جنگ کے خاتمے اور 911 کے بعد دنیا اور مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی حقائق میں تغیرات نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ اسرائیل کے بارے ہمیں اپنی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنی چاہۓ۔ مجھے قومی سطح پر اور عرب دنیا ميں اس مسٔلے کی نزاکت کا بھرپور ادراک ہے اور یہ احساس بھی ہے کہ ہمیں انتہائی احتیاط سے چلنا ہوگا۔

پہلے میں نے داخلی فضا دیکھنے کے لۓ ایک محتاط بیان دیا کہ اسرائیل اگر ایک ایسی قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف پیش قدمی کرے جو فلسطینیوں کو قبول ہو تو پاکستان اسرائیل کے بارے  میں اپنے سفارتی نقطۂ نظر پر نظرِ ثانی کرے گا۔ میری توقع کے مطابق، اخبارات اور دانشوروں کا ردِ عمل انتہائی مثبت تھا، جبکہ عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اس کے بعد مجھھ سے امریکہ کے یہودی فرقے کے نمائندوں نے امریکن جیوئش کانگریس کے صدر جیک روزن کی سربراہی میں رابطہ کیا اور نیویارک کے یہودی فرقے سے خطاب کرنے کی دعوت دی، میںنے بغیر زیادہ تعطل کے اسے قبول کرلیا۔ ساتھھ ہی ساتھھ ہم نے اسرائیلي وزیرِ اعظم ایریل شیرون کے رویے یں مسٔلۂ فلسطین کے بارے میں نمایاں تبدیلیاں دیکھیں۔ انہوں نے غزہ سے یہودی آبادکاروں کا انخلا زبردستی شروع کردیا۔ جب میں نے ٹیلی ویڎن پر یہ دیکھا تو محسوس کیا کہ یہ ایک اچھا موقع ہے اور سوچا کہ پاکستان اور اسرائیل کے وزراۓ خارجہ کو کھلے عام ملنا چاہۓ۔ ہمارے خیال میں اس ملاقات کے  لۓ ترکی سب سے زیادہ موزوں جگہ تھی اور ترکی کے وزیرِ اعظم سے اس ملاقات کا اہتمام کرنے کے لۓ درخواست کی جاسکتی تھی۔ یہ پورا انتظام صرف ایک دن میں ہوگیا۔ اسرائیل کی بے تابی عیاں تھی۔ میزبان برادر ملک کے وزیرِ اعظم اور اپنے دوست کا میں انتہائی مشکور تھا۔

پاکستان اور اسرائیل کے وزراۓ خارجہ کی یہ تاریخی اور افتتاحي ملاقات یکم ستمبر 2005 کو استنبول میں ہوئی۔ یہ مثبت رہی اور اس کے بعد میں نے 17 ستمبر 2005 کو نیویارک میں امریکن جیویش کانگریس سے خطاب کیا۔ ماحول میں بڑا جوش وخروش تھا اور مجھے دیا ہوا استقبالیہ انتہائی پرتپاک اور خیرمقدمی تھا۔ امریکی یہودی فرقے کی تمام سربرآوردہ شخصیات وہاں پر موجود تھیں اور باقاعدہ تقریب سے پہلے میں ان سب سے ملا۔ یہ ایک بہت بڑی ابتدا تھی۔ امریکی یہودیوں کے ساتھھ ایک پاکستانی رہنما کا گھلنا ملا اور اس کے بعد خطاب۔ تقریب کا افتتاح مل کر روٹی توڑنے کی رسم سے ہوا۔ جیک روزن نے اپنی افتتاحی تقریر ميں میرے لۓ تعریفی کلمات کہے۔ کانگریس مین ٹام لینٹوس نے امریکی دارالعوام کے ریکارڈ کا فریم کیا ہوا کتبہ جس کا عنوان پاکستان کے صدر پرویز مشرف کو خراجِ تحسین تھا پہلے پڑھا اور پھر مجھے پیش کیا۔ میری اپنی تقریر بھی جزباتی تھی اور میرے خیال میں سامعین پر اثر انداز ہوئی۔ یہ ایک نیا آغاز تھا۔ اندرونِ ملک ردِ عمل مثبت تھا اور بین الاقوامی سطح پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا گیا۔

فلسطینی تنظیمِ آزادی کے منشور میں اسرائیل کے زندہ رہنے کا حق تسلیم ہوجانے کے بعد پاکستان اب اسرائیل کو ایک یہودی ملک اور ایک حقیقت مانتا ہے لیکن ساتھھ ہی ساتھھ ایک آزاد اور قابلِ عمل فلسطینی ملک کی حمایت کے وعدے کا بھی پابند ہے، جو فلسطینی عوام کے لۓ قابلِ قبول ہو۔ میرے خیال ميں اب ہم مسٓلۂ فلسطین کے حل اور برسوں سے تکلیف ميں مبتلا فلسطینی عوام کے لۓ ایک ملک کے قیام کی خاطر ایک زیادہ بامقصد کردار ادا کرسکيں گے۔

[اسرائيل کيساتھ تعلقات استوار کرنے کي سب سے بڑي وجہ اپني نوکري پکي کرنے کے سوا کچھ نہيں تھا۔ پرويز صاحب نے جيسا کہ خود اقرار کيا ہے کہ يہودي امريکہ ميں بہت مضبوط ہيں اور يہي وجہ ہے کہ ان کو يقين ہے کہ اگر ان کے تعلقات يہوديوں کيساتھھ مضبوط ہوں گے تو امريکہ کو ان کي حکومت کي حمايت کرنا پڑے گي۔ پرويز صاحب نے جيو کانفرنس کي تقريب کا حال اس طرح بيان کيا ہے جيسے ايک ديہاتي پہلي دفعہ شہر کي سير کے بعد اپنے دوستوں کو اس کے قصے سناتا ہے۔ پرويز صاحب نے اپني کتاب ميں جن جن سربراہي ملاقاتوں کا اب تک ذکر کيا ہے ان کي روداد بيان کي ہے اور ان کا مطمع نظر بيان نہيں کيا اور نہ ہي تکنيکي پہلوؤں پر بات کي ہے۔ يہاں پر بھي مناسب ہوتا اگر پرويز صاحب اپني تقرير کے چند اہم نقاط کا ذکر کرديتے۔ اسرائيل کے ساتھھ تعلقات بحال ہوۓ ايک سال ہوچکا ہے اور اب تک پاکستان کا کردار فلسطين کے مسٔلے ميں صفر رہا ہے اور آئندہ بھي اميد کم ہي ہے کہ پرويز صاحب کوئي کوشش کريں گے۔ عام خيال تو يہ ہے کہ پرويز صاحب کي فلسطين کے مسٔلے ميں کوئي اہميت ہي نہيں ہے اور انہيں آج تک کسي نے پوچھا تک نہيں]۔

میں نے دنیا، مسلم امہ اور ہمارے خطے میں امن لانے کی کوششوں میں سب کے ساتھھ پرامن بقاۓ باہمی کے اصول پر عمل کیا ہے۔ میرا یقین ہے کہ ان ملکوں کے ساتھھ، جن سے ہمارے مفادات وابستہ ہیں ہمارے باہمی تعلقات کے درمیان ان کے سوسرے ملکوں کے ساتھھ تعلقات بنانے میں، پاکستان کی بھارت مرکوز حکمتِ عملی سے کنارہ کشي اختیار کی جاۓ۔ بھارت کے ساتھھ بڑھتے ہوۓ اقتصادی تعلقات کے باوجود، چین ہمارا دیرینہ، بروقت ساتھھ دینے والا، پرخلوص اور سچا دوست ہے۔ ہم بیک وقت امریکہ کے ساتھ بھی طویل المیعاد اور اعلیٰ سطح پر تعلقات پیدا کررہے ہیں، جو امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں پیدا ہونے والی گرم جوشي کے اثر سے آزاد ہیں۔

[چين کو اگر پرويز صاحب دوست مانتے ہيں تو بہتر ہوتا کہ چين کے دورے کا بھي ذکر کرديتے يا پھر چين نے اب تک جو پاکستان کي مدد کي ہے اس کا سرسري سا ہي ذکر کرديتے۔ مگر وہ ايسا اسلۓ نہيں کريں گے کہ اسطرح ان کے آقاؤں کي سبکي ہوگي]۔

خلیج میں سب ریاستوں کے ساتھھ دوستانہ تعلقات ہونے کے علاوہ، پاکستان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھھ ہمیشہ بہت قریبی تعلقات رہے ہیں۔ یہ انتہائی خصوصی رشتہ قائم و دائم ہے۔ میں نے دونوں ممالک کے سربراہوں کےساتھھ مراسم استوار کرکے ان رشتوں کو مزید تقویت دی ہے۔

[سعودي عرب کيساتھھ پاکستان کے سربراہوں کا تعلق صرف عمرے کرنے کي حد تک ہے۔ وہ جب بھي سعودي عرب جاتے ہيں دکھاوے کے عمرے کرتے ہيں، تصويريں بنواتے ہيں اور بس واپس آجاتے ہيں۔ نہ کبھي مشترکہ تجارت کي بات کي ہے اور نہ کبھي تيل کے لين دين پر سودے بازي ہوئي ہے]۔

ایران ہمارا اہم ہمسائیہ ہے۔ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اس کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات رہیں، لیکن اس میں نشیب و فراز بھی آتے رہے ہیں۔ امریکہ اور ایران کے درمیان نیوکلیائی آمنا سامنا، بھارت کے ساتھ ہمارے جداگانہ تعلقات اور افغانستان کے معاملے پر ہمارا موٓقف، باہمی تعلقات میں پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک مضبوط اور دیرپا دوستی قائم کرنے کے لۓ جو ہمارے جغرافیے اور تاریخ کا تقاضا ہے، ہمارے لۓ ایک دوسرےکے احساسات کو سمجھنا ضروری ہے۔

[ايران چونکہ اتحاديوں کا سب سے بڑا دشمن ہے اسلۓ پاکستان اس کےساتھھ دوستانہ تعلقات في الحال قائم نہيں کرسکتا۔ عرصہ پہلے جو آر سي ڈي کا معاہدہ ايران، پاکستان اور ترکي کے درميان ہوا تھا اب اس کي کسي کو خبر تک نہيں ہے]۔

اکیسیویں صدی میں عالمی سیاست اور عالمی حکمتِ عملی کے مقابلے میں عالمی معاشیات کی اہمیت زیادہ ہوگی۔ ملکوں کے درمیان تعلقات کا انحصار ان کے معاشی رشتوں پر ہو گا۔ آپس کی تجارت، باہم صنعتی منصوبے اور سرمایہ کاری۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سفارت خانوں کو پاکستانی درآمدات اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لۓ کاوشیں کرنی چاہئیں۔ ماضی میں یہ دونوں میدان عدم توجہی کا شکار رہے ہیں۔

ہمارے سفارت کاروں کے رویوں میں تبدیلی لانے کے لۓ انہیں نئ روشوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ہمارے سفيروں کو ان کی اپنی وزارتِ خارجہ کے علاوہ تجارت، صنعت، سرمایہ کاری کی وزارتوں اور ادارہ فروغ درآمدات کے ساتھھ مل کر کام کرنے کۓلۓ کہا گیا ہے۔ سب کی مشترکہ کوششیں ہی نتیجہ خیز ثابت ہوں گی۔

ہم نے 2000 ميں اس کوشش کا جارحانہ طریقے سے آغاز کیا اور اپنے سفارتخانوں میں اہل کمرشل قونصلروں کا تقرر کیا۔ ميں نے سفیروں پر واضح کیا کہ ان کی کارکردگی کا پیمانہ تجارتی سرگرمیاں بڑھانے میں کامیابی ہوگا۔ ہم نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ہماری تجارت کا روایتی ہدف امریکہ اور یورپ کی جگہ جنوبی امریکہ، افریقہ، مشرقی یورپ، جنوب مشرقی ایشیا، چین اور جنوبی ایشیا میں ہمارے ہمساۓ ہونے چاہئیں۔ ہم نے امتیازی تجارتی معاہدے، حتیٰ کہ آزاد تجارتی معاہدے کرنے کے لۓ تمام سفارتی ذرائع استعمال کۓ۔ اپنے پرانے اور بہترین دوست چین کے ساتھھ ہم نے تجارت کو خصوصی فروغ دینے کے لۓ ابتدائی زراعت نامی منصوبے پر دستخط کۓ۔ تجارت میں اتنی تیزی آئی کہ 2006 میں ہماری درآمدات[کتاب ميں درآمدات لکھا ہوا ہے حالانکہ ايکسپورٹ کے معني برآمدات ہونا چاہئيں] 18 عرب ڈالر تک پہنچ گئیں یعنی پانچ سال میں 125 فیصد کا اضافہ۔

[سفيروں کي تعيناتي ميں ميرٹ کا لحاظ نہيں رکھا گيا اور زيادہ تر ممالک ميں يا تو ريٹائرڈ فوجي افسر سفير بناۓ گۓ ہيں يا پھر سفارشي لوگ بھجے گۓ ہيں۔ اب اگر سفيروں کي تقرري کے بنيادي طريقے کو ہي پسِ پشت ڈال ديا جاۓ گا تو پھر نتيجہ خاک نکلے گا۔ پرويز صاحب کے بقول سفيروں کي کارکردگي کا جائزہ ان کي آؤٹ پٹ سے ليا جاۓ گا۔ مگر آج تک نہ کوئي جائزہ ليا گيا اور نہ ہي کسي سفير کي کارکردگي کي بنا پر تبديلي ہوئي۔ پرويز صاحب نے برآمدات کے بڑھنے کا ذکر تو جوش و خروش سے کرديا مگر يہ نہيں بتايا کہ برآمدات کے مقابلے ميں درآمدات بڑھ ہيں اور ان کا بڑھناا ملک کيلۓ نقصان دہ ہوتا ہے منافع بخش نہيں اور آج کل يہي تجارتي خسارہ ملک کي اقتصاديات کيلۓ خطرناک بنتا جارہا ہے]۔

مجھے اپنے سفیروں سے توقع تھی وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کۓ لۓ پاکستان کو ایک ترجیحی منزلِ مقصود کے طور پر پیش کریں گے۔ اب انہوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی شروع کردی ہیں۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں، وہاں میرے وہ ہی کام ہوتے ہیں۔ سیاسی تعلقات میں بہتری لانا اور تجارتی حلقوں سے مل کر انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کےلۓ مائل کرنا۔ بیرونی ممالک کےدوروں پر ایک مضبوط تجارتی وفد ہمیشہ میرے ہمراہ جاتا ہے۔ ان اقدامات کے باعث غیرملکی سرمایہ پاکستان ميں آنا شروع ہوگیا ہے۔

[اس حکومت نے غيرملکي ريکارڈ دورے کۓ ہيں ان پر بےتحاشہ قومي دولٹ لٹائي ہے مگر نتيجہ کچھ بھي نہيں نکلا سواۓ دہشت گردي کے اقدامات کے معاہدے کرنے کے۔ ان دوروں کے باوجود ملک کا تجارتي خصارہ پچھلے سال کي نسبت دوگنا ہوچکا ہے اور قياس يہي ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پايا گيا تو ملک کي اکانومي چند دنوں کي مہمان ثابت ہوگي۔ سفيروں کي تعريف اسلۓ  نہيں کي جارہي کہ وہ ملک کي ترقي کيلۓ کچھ کررہے ہيں بلکہ اسلۓ کي جارہي ہے کہ وہ پرويز صاحب کے دوروں کے انتظامات اچھے طريقے سے کررہے ہيں]۔