ایم ایم اے والوں نے حقوقِ نسواں بل کی بحث کے دوران پتہ نہیں کس زعم میںآ کر یہ اعلان کردیا کہ اگر یہ بل اسمبلی سے پاس کرا لیا گیا تو وہ استعفے دے دیں گے۔ ان عقل کے کچوں کو يہ معلوم نہيں تھا کہ حکومت کي اسمبلي ميں اکثريت ہے اور عوام چين کي نيند سورہے ہيں ، اسلۓ حکومت جب چاہے گي بل پاس کرالے گي۔  پہلے حملے ميں حکومت نے پسپائی اختیار کی مگر بلاوجہ نہیں۔ جنرل صدر مشرف صاحب امریکہ گۓ اور ادھر سے شائد انہیں یہ خوشخبری سنائی گئ کہ آپ بل پاس کرائیں اور يقين رکھيں کہ لوگ آپ کیخلاف نہيں ہوں گے۔  دوسری طرف حکومت کی پہلی پسپائی ایم ایم اے کو مزید بیوقوف بناگئ اور وہ حکومت کی چال نہ سمجھ سکی۔ بل دوبارہ پیش ہوا اور بناں کسی رکاوٹ کے پاس ہوگیا۔

اب وقت تھا ایم ایم اے کا اپنے قول کو ثابت کرنے کا۔ ابھی ایم ایم اے کا غصہ کم نہیں ہوا تھا کہ جلد بازی میں حافظ حیسن احمد اور دو اور اراکین نے استعفوں کا پکا وعدہ کرلیا۔  بعد ميں جب ایم ایم اے کو ہوش آیا تو دیر ہوچکی تھی اور سواۓ اپنے کۓ پر شرمندہ ہونے کے ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ ایم ایم اے جو پہلے صرف دل سے کام لے رہی تھی پھر اس نے دماغ سے سوچنا شروع کر دیا۔  اسے معلوم ہوا کہ وہ تو سانپ کے منہ میں چھپکلی کے مصداق ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف اپنی زبان کا پاس ہے اور دوسری طرف حکومت کیلۓ کھلا میدان۔ یعنی اگر استعفے نہ دیں تو زبان سے پھرتے ہیں اور اگر استعفے دیں تو حکومت ذمنی انتخابات کراۓ گی اور اپنی مرضی کے اراکین کو منتخب کرا کے اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلے گی۔ اس کے بعد حکوت کو فري ہينڈ مل جاۓ گا اور وہ جنرل صدر پرويز صاحب کے اسي اسمبلي سے دوبارہ ووٹ لے کر صدر بننے سميت پتہ نہيں اور کيا کيا غيراسلامي قوانين بھي پاس کرالے گي۔  کسی ہمت والے نے ہمت کی اور ایم ایم اے کے استعفوں کے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کیلۓ اپنی کونسل کا اجلاس بلانے کا اعلان کردیا۔ اب اجلاس سے پہلے مولانا فضل الرحمان کے اسمبلی اراکین نے استعفے نہ دینے کے حق میں راۓ دے دی اور اسی وجہ سے ایم ایم اے کا اجلاس بناں کسی نتیجے پر پہنچے اس وعدے پر اختتام پزیر ہوا کہ عید کے بعد سپریم کونسل اس معاملے پر غور کرے گا۔ 

اس دن سے ايم ايم اے اراکين کو ٹي وي کے مباحثوں ميں وہ سبکي اٹھاني پڑ رہي ہے کہ خدا پناہ۔ مباحثوں کے ميزبان جو حکومت کے بہت سارے معاملات پر بحث کرتے تھے اب سب کچھ بھول کر ايم ايم اے کے استعفوں کے پيچھے پڑ چکے ہيں۔  ايم ايم اے کو اب کيا کچھ نہيں سننا پڑ رہا۔ کوئي انہيں قول کے کچے کہہ کر پرويز مشرف کے وردي اتارنے کے وعدے سے پھرنے کے برابر قرار دے رہا ہے، کوئي انہيں حکومت کي بي ٹيم کہہ رہا ہے، کوئي انہيں ملا  ملٹري اتحاد کے ثابت ہوجانے کا طعنہ دے رہا ہے اور کوئي تو انہيں زبان سے پھر کر دين کے بہت بڑے اصول کي دھجياں اڑانے کي بات کر رہا ہے۔

حقيقت ميں اگر ديکھا جاۓ تو معاملہ کافي سنگين ہے اور واقعي يہ وقت استعفے دينے کا نہيں ہے۔ استعفے دينے کا وقت جلد آنے والا ہے جب  جنرل صدر مشرف اسي اسمبلي سے اگلي پانچ سالہ مدت کيلۓ دوبارہ صدر کا ووٹ ليں گے اور اس وقت ہوسکتا ہے حزبِ اختلاف کي دوسري پارٹياں بھي ايم ايم اے کا ساتھ ديں۔ ليکن ايم ايم اے کے قول سے پھرنے کا ان کے پاس اس وقت کوئي جواب نہيں ہے۔ يہ جو کہ رہے ہيں انہوں نے استعفے دينے کي بات کي تھي مگر کوئي وقت مقرر نہيں کيا تھا سب فراڈ ہے۔ ليکن ہوسکتا ہے ايم ايم اے والے وہ غلطي نہ دھرانا چاہتے ہوں جو طالبان نے اپني ضد پر اڑ کر حکومت گنوا کر کي تھي۔ اس وقت طالبان نے قول نبھا کر اور مہمان کو ملک بدر نہ کرکے تاريخ ميں اپنا نام تو درج کرا ليا مگر اس کے بدلے حکومت گنوا دي۔ 

ايم ايم اے والوں کے پاس ايک ہي راستہ ہے اپني عزت بچانے کا کہ وہ استعفے دے ديں اور باقي سب اللہ پر چھوڑ ديں مگر وہ ايسا نہيں کريں گے۔ وہ حکومت ميں رہيں گے اور اسمبلي کے پليٹ فارم سے حکومت کيساتھ ڈيل يا نو ڈيل کريں گے۔ ان کي اس سٹرٹيجي کا اس وقت پتہ چلے گا جب جنرل صدرمشرف اسي اسمبلي سے دوبارہ ووٹ لينے کي کوشش کريں گے۔

ابھي تو صرف ہم يہي کہہ سکتے ہيں کہ ملا، ملٹري ايک برابر۔