بہبودِ خواتین
مختاراں مائی کا نام اندرونِ ملک گھر گھر اور بین الاقوامی سطح پر بھی خوب جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ ایک انتہائی دہشت ناک حادثے، زنابالجبر کی وجہ سے وہ مشہور ہوئیں۔ زنابالجبر کے اس واقعہ کے بعد بہت کچھھ سنا، کہا اور لکھا گیا ہے اور پاکستان میں خواتین کو جن امتحانات اور دشواریوں کا سامنا ہے، یہ اس کی ایک مثال ہے جسے بتانا میں ضروری سمجھتا ہوں۔
مختاراں مائی 1969 میں جنوبی پنجاب کے گاؤں میروالا میں گجر قبیلے میں پیدا ہوئیں۔ وہ طلاق یافتہ ہیں یا کم از کم اس واقعہ کے وقت تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے بھائی عبدالشکور نے مستوئی قبیلے کی ایک خاتوں نسیم کے ساتھھ تعلقات استوار کۓ ہوۓ تھے۔ مستوئی قبیلہ اپنا درجہ گجر قبیلے سے اونچا سجمھتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ نسیم کے دوبھائی اللہ دتہ اور عبدالخالق نے نسیم اور عبدالشکور کو ایک دوسرے کے ساتھھ پکڑا تھا۔ عبدالشکور کو زبردستی پکڑ کر اس کے ساتھھ بد فعلی کی گئی اور پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ گاؤں والوں نے اس جھگڑے کو نمٹانے کے لۓ ایک پنچائیت بلائی۔ پنچائیت نے فیصلہ دیا کہ عبدالشکور کو نیسم سے شادی کرنی چاہۓ اور مختاراں مائی کو نسیم کے کسی ایک بھائی سے۔
نسیم کے بھائی عبدالخالق اور دوسرے چند افراد نے اس فیصلے سے اتفاق نہ کیا۔ عبدالخالق، اس کا بھائی اللہ دتہ اور دو دوسرے افراد مختاراں مائی کو گھسیٹ کر ایک کمرے میں لے گے۔ شاہدوں کے مطابق مختاراں مائی پریشان حال اور نیم برہنہ حالت میں کمرے سے باہر آئیں۔ بلاشبہ نہ تو مختاراں مائی کا اس میں کوئی قصور تھا نہ انہیں اپنے بھائی کے نسیم کے ساتھ غیر محتاط رویے کی سزا ملنی چاہۓ تھی۔
اسلام میں بدکاری اور کسی بے گناہ انسان کو کسی اور کے گناہ یا جرم کے بدلے سزا دینے کی سخت ممانعت ہے اور اسلام میں ایک خاندان کی لڑکی کی شادی بدلے کے طور پر دوسرے یعنی شکایت کرنے والے خاندان میں کرنے کے رواج کی بھی ممانعت ہے۔ یہ رواج غیراسلامی، غیر قانونی، غیر انسانی اور غیرمہزب ہے لیکن ہمارے چند دیہی علاقوں میں رائج قابلِ مزمت قبیح روایتوں میں سے ایک ہے، جو نہ صرف اسلامی بلکہ ملک کے دوسرے قوانین پر بھی حاوی ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ حکومت اس قسم کے رواجوں کو دستیاب وسائل استعمال کرکے ختم نہ کرے، بلکہ یہ تو حکومت کا فرض ہے کہ کمزور، محروم اور معاشرے کے دوسرے نچلی سطح کے افراد کی حفاظت کرے۔ یہی حکومت کا کام ہے۔ لیکن 160 ملین آبادی پر مشتمل ملک، جو کتنے سومربع میل رقبے پر پھیلا ہو اور جہاں تعلیم کی، خصوصاً دیہی علاقوں میں کمی ہو، وہاں قدیم رسموں رواجوں کو ختم کرنا اتنا آسان نہيں، جتنا کہنا، لیکن ہم کوشش کررہے ہیں۔
کمرے کا واقعہ اور پنچائیت 22 جون 2000 کو ہوۓ تھے۔ 30 جون کو مقامی تھانے ميں ان کے بارے میں ایک رپورٹ درج کرائی گئ۔ اخبارات کی چیخ و پکار نے میری توجہ اس طرف مبزول کرائی اور میں نے مختاراں مائی کے حق میں فوری انصاف کۓ۔ میں نے انہیں تقریباً چھھ لاکھھ روپے اور مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ بڑی سے بڑی رقم بھی کسی عورت کے لۓ زنابالجبر جیسے دہشت ناک حادثے کا معاوضہ نہیں ہوسکتی۔ یہ مقدمہ ڈیرہ غازی خان کی انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت میں چلایا گیا اور 31 اگست 2002 کو نسیم کے دونوں بھائیوں اور ان کے چار ساتھیوں کو سزاۓ موت سنادی گئ۔ سزا یافتہ لوگوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کی اور ناکافی ثبوت کی بنا پر عبدالخالق، جس کی سزاۓ موت کو عمرقید میں تبدیل کردیا، باقی سب لوگ بری ہوگۓ۔ یہ فیصلہ 3 مارچ 2005 کو سنایا گیا۔
[حقیقت یہ ہے کہ حکومت اس معاملے میں تبھی کودی جب میڈیا نے اس کا ناک میں دم کردیا اور حکومت کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ یہ حادثہ آگے چل کر عوامی تحریک میں نہ بدل جاۓ۔ اسی وجہ سے حکومت نے یہ مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلایا حالانکہ اس کا دہشت گردی سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ ملزمان کو جلدی میں سزا دلوادی تاکہ معاملہ ٹھنڈا پڑجاۓ۔ اس کے بعد جب عالمی میڈیا نے مختاراں مائی کو نمایاں جگہ دینی شروع کی تو حکومت کو اپنی بدنامی کا ڈر لگنے لگا۔ پہلے پہل تو پرویز صاحب نے مختاراں مائی کی نقل و حرکت پر پابندی بھی لگائی اور اسے ایک دفعہ نیویارک یہ کہہ نہ جانے دیا گیا تاکہ پاکستان کی نیک نامی پر حرف نہ آۓ۔ لیکن جب آقاؤں نے دباؤ ڈالا تو پھر مختاراں مائی کو نہ صرف آزاد کردیا گیا بلکہ اس کے نام پرویز صاحب کو یہ باب بھی منصوب کرنا پڑا۔ پرویز صاحب کی کہانی اگر سچ ہے تو پھر مختاراں مائی کے مجرموں کو سزا ملنی چاہۓ تھی اور انہیں ہائی کورٹ سے بری نہیں ہونا چاہۓ تھا]۔
اس فیصلے کے خلاف مختاراں مائی، حقوقِ انسانی کی تنظیموں، غیرسرکاری تنظیموں اور حقوقِ نسواں کے کارکنوں نے ایک لمبی چوڑی مہم چلائی۔ 26 جون 2005 کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف مختاراں مائی کی طرف سے پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک دعویٰ دائر کیا گیا۔ بری ہونے والے لوگوں کے بنا ضمانت گرفتاری کے وارنٹ جاری کۓ گۓ اور انہیں پکڑ کر جیل میں بند کردیا گیا۔
[ یہ بیرونی امداد کے سہارے چلنے والی این جی اوز ہی تھیں جن کے ڈر سے پرویز صاحب نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود ملزموں کو دوبارہ گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ اب وہ جیل میں بیٹھھ کر سپریم کورٹ میں اپنی اپیل کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ ملزموں کی بدقسمتی ہے یا ان کے اعمالوں کی سزا کہ ان کا کیس سیاسی بن چکا ہے اور اب سپریم کورٹ میں ان کے فیصلے کی باری پرویز صاحب کی حکومت میں تو نہیں آۓ گی]۔
میں اس پورے قصے میں، خاموشی سے مختاراں مائی کی حمایت کرتا رہا۔ حکومت نے تقریباً پونے دو کروڑ روپے کی لاگت سے ان کے گاؤں میں ایک سکول، ایک پولیس چوکی اور خواتین کا امدادی مرکز قائم کرنے میں مدد کی۔ لاتعداد غیرسرکاری تنظیموں، سفیروں اور حقوقِ نسواں کے کارکنوں نے اس گاؤں کا دورہ کیا۔ مختاراں مائی کو محتلف تقریبات میں مدعو کیا گیا اور ان کی مالی اور اخلاقی مدد کی گئ۔ وزیرِ اعظم کی سماجی بہبود کی مشیر نے 2 اگست 2005 کو انہیں فاطمہ جناح طلائی تمغہ بھی دیا۔
[حکومت نے اپنی مرضی سے مختاراں مائی کے کاز آگے نہیں بڑھایا بلکہ اسے عالمی ذرائع ابلاغ، اس کے آقاؤں اور این جی اوز کے دباؤ میں یہ سب کرنا پڑا۔ پرویز صاحب نے امریکہ کے دورے کے دوران انٹریو میں ایک دفعہ یہ کہ کر اپنے آپ کو مصیبت میں پھنسا لیا تھا کہ مختاراں مائی کی طرح کی خواتین شور مچا کر اپنے ریپ کو کیش کراتی ہیں۔ بعد میں پرویز صاحب کو عوامی دباؤ کی وجہ سے اس سٹیٹمنٹ کو واپس لینا پڑا۔ اگر اب بھی پرویز صاحب کو عوامی غصے کا ڈر نہ ہوتا تو وہ یہ بات ضرور اپنی کتاب میں دوبارہ لکھتے اور مثال کے طور پر ڈاکٹر شازیہ کے کیس کا ضرور حوالہ دیتے۔ یہ پرویز صاحب کا دوغلہ پن ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو مختاراں مائی کی حمایت میں اتنے آگے نکل گۓ کہ اس کا ذکر اپنی کتاب میں کرنا پڑا اور دوسری طرف ڈاکٹر شازیہ کو طاقت کے زور پر جلاوطن کردیا اور اس کا کیس بند کردیا]۔
مختاراں مائی نے تمام دنیا میں سفر کۓ۔ وہ 2 فروری 2003 میں سپین گئیں، 12 اگست 2004 کوسعودی عرب، 10 جنوری 2004 کو بھارت، اکتوبر 2005، جنوری 2006 اور مئی 2006 میں امریکہ اور جنوری 2006 میں فرانس۔ بہت سے ٹیلی ویڎن چینلز اور اخبارات نے ان کے انٹرویو کۓ اور تمام دنیا میں انہیں بہت سے تمغے بھی ملے۔ مخاراں مائی بہت مشہور ہوگئیں، بلکہ ایک اہم شخصیت بن گئیں، حالانکہ ان کے ساتھھ پیش آنے والے المیے کی وجہ سے میں یہ الفاظ استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے رہا ہوں۔ وہ سکول اور خواتین کی بہبود کرتی ہیں۔ ان کے ساتھھ جو برا سلوک ہوا، اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے دوسرے بہت سے علاقوں میں خواتین پر ہونے والی زیادتیوں کو اجاگر کرکے منظرِ عام پر لائیں۔ زنابالجبر دنیا میں کہیں پر بھی ہو، ایک المیہ ہے اور اس کا نشانہ بننے والی خاتون کے لۓ انہتائی وحشت ناک حادثہ ہوتا ہے۔ مختاراں مائی اور وہ تمام خواتین جنہیں ایسے المناک حادثے سے دوچار ہونا پڑا، میری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔
ایک خاتون کے لۓ اپنے اوپر ظلم کرنے والے کے خلاف مقدمہ کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے، جو سرزد ہونے والے جرم سے کم پریشان کن نہیں ہوتا۔ جو خاتون اس راہ کا انتخاب کرتی ہے، وہ جرآت کےلۓ نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ قابلِ عزت بھی۔ مختاراں مائی واقعی ایک ایسی خاتون ہیں۔ ان کی دلیری اور جرآت نے نہ صرف ہماری توجہ مسٓلے کی طرف بلکہ ہماری توجہ موٓثر اصلاحی تدابیر کی طرف بھی مرکوز کرائی۔
پاکستان کی خواتین تکلیف اور عدم تحفظ کی شکار ہیں۔ انہیں اکثر انصاف نہیں ملتا اور ایک مہزب معاشرے میں یہ ناقابلِ معافی ہے۔ بد قسمتی سے، پاکستان میں خواتین پر تشدد، جس میں زنابالجبر بھی شامل ہے، جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، ہمیں اس ناسور کو ٹھیک کرنے کے خصوصی اقدامات کرنے ہیں۔
زنابالجبر اور خواتین پر تشدد ایک عالمی مسٓلہ ہے، لیکن یہ پاکستان میں اس لعنت کے موجود ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھے اعتراض صرف اس وقت ہوتا ہے، جب تنِ تنہا پاکستان پر بہتان اور تہمت لگائی جاتی ہے کہ صرف پاکستان میں ہی ایسے واقعات ہوتے ہیں۔
جب پاکستان میں کسی خاتون کے ساتھ زیادتی ہونے کا معاملہ سامنے آتا ہے تو کبھی کبھی اس کا سب سے پہلا شکار سچ ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ا س قسم کے معاملات کی طرف ذرائع ابلاغ سب سے پہلے توجہ دلاتے ہیں۔ یہ کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ اس سے معاملے کو فوری اہمیت مل جاتی ہے اور حکومت میں عجلت کا احساس پیدا ہوتا ہے، لیکن کچھ غیرذمہ دار ذرائع ابلاغ، بناں پوری معلومات حاصل کۓ، اپنی طرف سے تبصرے کرنے شروع کردیتے ہیں، ادھوری معلومات کے ساتھ دیۓ گۓ بیانات حقیقت مان لۓ جاتے ہیں۔ سرکاری اداروں کے ردِّعمل کی رفتار سست ہوتی ہے، کبھی کبھی صرف غیرذمہ داری کی وجہ سے اور کبھی اپنی تفتیش کو پوشیدہ رکھنے یا بہت سی معلومات کو خفیہ رکھنے کے لۓ تاکہ ان کا قانونی موٓقف کمزور نہ پڑجاۓ۔ سیاست دان، حصوصاً حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے بھی حکومت کو بدنام کرنے کے لۓ حقیقت کو موڑ توڑ کر اس جھگڑے میں کود جاتے ہیں۔ غیرسرکاری تنظیمیں بھی عموماً نیک نیتی کے ساتھھ اس میدان ميں آجاتی ہیں، لیکن وہ بھی سینکڑوں غیر مصدقہ کہانیوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس طرح سچ، حقیقت سے دور سے دور تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ روپیہ پیسہ بھی اس میں ایک کردار ادا کرنے لگتا ہے اور حقیقت گم ہوجاتی ہے۔
[پرویز صاحب نہیں چاہتے کہ میڈیا میں ایسی خبریں آئیں جن کی وجہ سے ان کی حکومت بالخصوص اور پاکستان بالعموم بدنام ہو۔ اسی لۓ اب حقوقِ نسواں بل میں ایسی خبروں کے چھاپنے پر پابندی لگا دی گئ ہے۔ پرویز صاحب ایک طرف مزہبی تنظیموں اور میڈیا کی مداخلت کو غلط قرار دیتے ہیں تو دوسری این جی اوز کی مداخلت کو سچ اور معصوم قرار دیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان جیسے غیرجمہوری اور انصاف سے محروم ملک میں اگر میڈیا ایسی خبروں کو نہ چھاپے تو پھر ان حادثوں کے شکار لوگوں کو انصاف ملنا ناممکن ہوجاۓ]۔
حکومت کو ہمارے معاشرے میں خواتین کی حالتِ زار کو ختم کرنے کے لۓ عملی غوروفکر اور اقدامات کرنے چاہئیں۔ جب بھی کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو سب سے پہلے انتظامیہ کو اسے رفع کرنے کے لۓ فوری حرکت میں آجانا چاہۓ۔ صورتِ حال کی مکمل تحقیق کرکے آگاہ کرنا چاہۓ، انہیں ثبوت کو خفیہ رکھنے اور رازداری برتنے پر بہت زور نہیں دینا چاہۓ۔ اب ہم ایسے ہی طریقۂ کار پر چلنے کی کوشش کررہےہیں۔
[چھھ سال سے تو پرویز صاحب جانتے بوجھتے ہوۓ ان اقدامات پرتو عمل کر نہیں سکے ، آگے کیا کریں گے۔ یہ سب عالمی میڈیا کی تسلی و تشفی کی باتیں ہیں]۔
بہبودِ خواتین کا مجھے اقتدار میں آنے سے پہلے سے ہی احساس ہے۔ فوج کے افسر کی حیثیت سے میں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں خواتین کو درپیش صورتِ حال کا مشاہدہ کیا ہے۔ وہ مجھے ہمیشہ دگرگوں لگا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔
[پھر وہی بات ہے کہ چھھ سال میں تو کچھ کیا نہیں اور اب اس شخص کی طرح جو دوسری دفعہ حکمران بننے کیلۓ میدان میں اترتا ہے اور دوبارہ وعدے کرتا ہے، پرویز صاحب بھی اگلی ٹرم کی تیاری کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے اگر وہ چھھ سال میں حقوقِ نسواں کیلۓ کچھھ نہیں کرسکے تو آئندہ بھی ان سے توقع عبث ہے]۔
بہر صورت، یہ مباحثہ پاکستان کے سیاسی اور معاشرتی پس منظر میں ہونا چاہۓ۔ میں اندرونِ ملک اپنے معاشرے میں خواتین سے متعلق تمام معاملات سلجھانے اور ان کا تدارک کرنے کے لۓ تیار ہوں۔ اس کتاب کے توسط سے میں پاکستان میں خواتین کے مسائل کے حل کی حمایت اورمکمل تعاون کا اعلان کرتا ہوں۔
اندرونِ ملک خواتین کے حقوق کے مقامی حمایتیوں کے خیالات، میرے خیالات سے مختلف نہیں ہیں۔ شاید ہمارا اختلاف، ہمارے متفقہ مقاصد کو حل کرنے کے طریقۂ کار کی وجہ سے ہے۔ جب ہم خواتین کے لۓ مساری حقوق مانگتے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ لگانا ضروری ہے کہ کن معاملات میں خواتین، مردوں سے بہتر کام کرسکتی ہیں، کن میں مردوں کی طرح کام کرسکتی ہیں اور جہاں وہ مردوں کی طرح کام نہ کرسکیں تو ان معاملات میں انہیں تحفظ اور حمایت کی ضرورت ہے۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہم بتدریج آگ بڑھتے ہوۓ، ایک جامع طریقۂ کار کے تحت خواتین کو ان شعبوں میں ترقی دیں، جن میں انہیں مدد اور بہتری کی ضرورت ہے۔
میرا پہلا ہدف، خواتین کو سیاسی میدان میں بااختیار بنانا ہے۔ سیاسی طور پر بااختیار ہونے کی صورت میں انہیں اپنا مستقبل خود بنانے کا موقع ملتا ہے۔ بااختیار ہونے کے باعث انہیں حکومت کے اعلیٰ ترین محکموں میں اپنے حقوق کے لۓ لڑنے کا موقع ملتا ہے۔ [پہلے میں نے بیان کیا ہے کہ مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتی سطح پر خواتین کو سیااسی طور پر بااختیار بنانے کے لۓ میں نے کیا کیا ہے]۔ ہم نے 4.3 ملین ڈالر کی لاگت سے خواتین کو سیاسی امور کی تربیت دینے کے لۓ ایک سکول قائم کیا۔ 2006 تک تقریباً 27000 خواتین تربیت پاچکی ہیں۔
[پرویز صاحب نے اسمبلی میں خواتین کی سیٹیں بڑھا کر خواتین کے حقوق کی پاسداری نہیں کی بلکہ اسمبلی میں اپنے ممبران کی تعداد بڑھائی ہے۔ وہ چھھ سال میں دہشت گردی اور انتہاپسندی سے ہی نپٹ نہیں پاۓ تو خواتین کے حقوق کے بارے میں سوچنے کیلۓ وقت کہاں سے لائیں گے]۔
ہم نے خواتین کے حقوق کی نگرانی کے لۓ قومی کمیشن براۓ حیثیتِ نسواں قائم کیا اور ایک اصلاحي عمل کا منصوبہ صنفی اصلاحات کا لائحہ عمل شروع کیا تاکہ خواتین کی سماجی آزادی اور ان کی اضافی نمائندگی کو حتمی شکل دی جاسکے اور اس کے تمام اخراجات حکومت پاکستان نے ادا کۓ۔ ان کوششوں سے خواتین کو آگے بڑھنے میں بہت مدد ملی ہے۔ آج خواتین ہر سطح کے عوامی عہدیوں پر کام کررہی ہیں۔ 7 وفاقی کابینہ میں، 6 صوبائی وزیر، 10 پارلیمانی سیکرٹری اور 12 سینٹ اور قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کی سربراہ ہین۔ علاوہ ازیں پہلی مرتبہ ایک خاتون پاکستان کے مرکزی بینک کے گورنر کے باوقار اور طاقتور عہدے پر فائز ہیں۔ فوج میں ایک خاتون میجر جنرل ہیں۔ پہلی مرتبہ سندھ ہائی کورٹ میں دو خواتین جج مقرر کی گئ ہیں، ایک خاتون پہلی مرتبہ ڈپٹی اٹارنی جنرل بنی ہیں۔ خواتین فوج میں بھی بھرتی ہوئی ہیں اور پائلٹوں کی حیثیت سے فضائیہ میں بھی ہیں۔
صدر صاحب دفترِ خارجہ کی ترجمان تسنیم کا ذکر کرنا بھول گۓ ہیں۔ حالانکہ ان کا ذکر، ذرائع ابلاغ کو یہ دکھانے کیلۓ کہ خواتین اہم عہدوں پر فائز ہیں اور وہ اعتدال پسند اور روشن خیال ہیں، بہت ضروری تھا]۔
لڑکیوں کو خصوصی مراعات کے ذریعے تعلیم کی طرف مائل کرنے کے لۓ بہت سے اقدامات کۓ گۓ ہیں۔ ان سب سے اچھے نتائج حاصل ہورہے ہیں۔ شہروں میں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں لڑکوں کی نسبت زیادہ آگے ہیں۔
حقیقت میں لڑکیوں کی کارکردگی لڑکوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ خواتین کو اقتصادی طور بھی بااختیار بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہنر سکھانے کے کئ تربیتی مراکز کھولے گۓ ہیں، جہاں انہیں چھوٹے چھوٹے قرضے لینے کی سہولت حاصل ہے۔ خواتین کا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری بھی قائم کردیا گیا ہے۔ حال ہی میں خواتین کی بنائی ہوئی مصنوعات کی ایک بہت بڑی نمائش کراچی میں منعقد کی گئ تھی۔ مجھے اس کے انعقاد کو ممکن بنانے کا شرف حاصل ہوا۔ ایک لاکھ سے زائد خواتین نے اس میں حصہ لیا۔
ہمیں خواتین پر تشدد اور ان کے خلاف قوانین کے خاتمے کے لۓ لڑنا ہے۔ قومی اسمبلی نے کاروکاری کے خلاف ایک قانون منظور کیا لیکن یہ اس کا حتمی جواب نہیں ہے۔ کاروکاری ایک شیطانی عمل ہے، جو پاکستان کے چند غیرترقی یافتہ علاقوں میں رائج ہے۔ یہ اسلام کے خلاف ہے، لیکن کچھھ مسلمان ہی زمانۂ قدیم سے اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ صرف قانون سازی ہی نہیں بلکہ تعلیم اور روشن خیالی بالآخر اس کا خاتمہ کر دیں گی۔ حکومت نے ایک بڑا قدم تو لے لیا ہے، لیکن اس پر عمل درآمد ہونے میں وقت لگے گا۔ قانون کی مدد اور تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے لۓ قومی سطح پر قومی کمیٹی براۓ انسدادِ تشدد برخلاف نسواں تشکیل دی ہے۔ سازوسامان سے آراستہ امدادی مراکز اور پناہ گاہیں کھولی گئی ہیں اور پولیس تھانوں میں خاص ٹیلی فون نمبروں پر خواتین کی شکایات وصول کرنے کے خصوصی مراکز قائم کۓ گۓ ہیں۔
ان تمام مسائل میں سب سے پیچیدہ اور نازک مسٓلہ حدود قوانین کا ہے، جو 1979 میں جنرل ضیاء الحق نے، جو کھلے عام مزہبی انتہاپسندوں سے راہ و رسم رکھتے تھے، لاگو کۓ۔ اس ميں زنا، زنابالجبر اور چوری کے لۓ سزائیں مقرر ہیں۔ مزہبی حلقے، حصوصاً ان کی سیاسی جماعتیں، ان قوانین کو اسلامی رواج کے مطابق سمجھتی ہیں، لیکن خواتین، دانشور اور بہت سے روشن خیال مزہبی مفکر اور علما، ان قوانین کو اسلام کی غلط تشریح اور خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی کہتے ہیں۔ اس قانون نے تمام دنیا میں ہمارے بارے میں انتہائی خراب تصور پھیلایا ہے، جس سے ہمیں بے انتہا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت قومی کمیشن براۓ حیثیتِ نسواں اس پر نظرِ ثانی کررہا ہے۔ اس مسٓلے کو محتاط سیاسی اور آئینی طریقوں سے حل کرنا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں نڈر ہو کر ماضی کی غلطیوں کو صحیح کرنا چاہۓ۔
[جنرل ضیا نے حدود آرڈینینس سعودی عرب کے قانون کی مدد سے تیار کیا تھا۔ اب تو اس قانون میں مغرب کی مرضی کے مطابق پرویز صاحب کی حکومت نے ترمیم کردی ہے جسے عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی سراہا ہے۔ لیکن سعودی قانون کی کبھی کسی نے بات نہیں کی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر مغرب نے ترمیم کی حمایت کی ہے تو وہ لازمی طور پر غیراسلامی ہوگی]۔
ہم نے خواتین کی سماجی آزادی کے لۓ ایک ناقابلِ تنسیخ طریقۂ کار شروع کردیا ہے جو انشااللہ بتدریج، مگر تیزی سے آگ بڑھے گا۔ خواتین اپنے حقوق کے لۓ جدوجہد کرنے کے لۓ اٹھھ کھڑی ہوئی ہیں اور بہت سے مرد اب یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں یہ سلسلہ روکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہۓ۔
[پرویز صاحب کی اس تحریر کو پڑھ کر ان کے قول و فعل میں جو تضاد ہے وہ نمایاں ہوگیا ہے۔ انہوں نے خواتین کیلۓ وہ کچھ نہیں کیا جو انہوں نے کہا ہے اور نہ ہی وہ نتائج اخز کۓ ہیں جن کیلۓ انہوں نے کمیشن اور ادارے بناۓ۔ بلکہ ہمارے خیال میں تو یہ سب دکھاوے ہیں اور اندرونی طور پر وہ ہمارے مرد کی حکمرانی والے معاشرے کو بدلنے میں ناکام رہے ہیں]۔
No user commented in " ان دی لائن آف فائر – 34 "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply