بی بی سی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار میں پاکستانی اخبار دی نیوز میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی جس میں وفاقی احتسابی ادارے نیب کے ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ بیس سینئر فوجی افسروں کی فائلیں نیب کے پاس پڑی ہیں جن میں بری فوج کے تین، بحریہ کے دو اور فضائیہ کے ایک سابق سربراہ کی فائل بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق زیرِ تحقیق عرصے میں اسلحے کے سودوں پر کوئی پانچ سوستر کروڑ روپے یعنی تقریباً ایک ارب ڈالر کی بدعنوانی کا تخمینہ ہے۔
اس میں سب سے ہائی پروفائل کیس ساڑھے نو سو ملین ڈالر مالیت کے فرانسیسی اگوستا آبدوزوں کی خریداری کے سودے کا ہے جس میں فرانسیسی کمپنی ڈی سی این نے تقریباً دس فیصد کمیشن کی ادائیگی کی اور فائدہ اٹھانے والوں میں آصف زرداری، ایڈمرل منصور الحق اور بحریہ کے کوئی چار دیگر افسروں کے نام لئے جاتے ہیں۔نیب کا کہنا ہے کہ اس نے ایڈمرل منصور الحق سے رقم وصول کرلی۔آصف زرداری کے خلاف کیس ثابت نہیں ہوسکا۔جبکہ نیول انٹیلی جینس کے ایک سابق ڈائریکٹر کموڈور شاہد کو کورٹ مارشل کرکے سات برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔لیکن انہوں نے عملاً یہ سزا صرف بارہ ہفتے اپنے گھر میں رہ کر بھگتی اور بحریہ کے نئے سربراہ ایڈمرل فصیح بخاری کے آتے ہی باقی سزا معاف ہوگئی۔
جنرل ضیا الحق نے امریکی ساختہ ابراہام ٹینک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی اور اس زمانے کی اطلاعات کے مطابق سات سو ملین ڈالر کا سودا بھی آخری مراحل میں تھا۔جنرل ضیا کی آخری مصروفیت بہاولپور کے صحرا میں ابراہام ٹینک کا دوسرا اور آخری ٹرائل دیکھنا تھی۔انکے بعد آنے والے فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ ابراہام کی خریداری کی جگہ چین کی مدد سے الخالد ٹینک بنانے کے حق میں تھے۔لیکن بعد میں آنے والے جنرل آصف نواز پولینڈ سے تین سو دس ٹی اسی ساختہ روسی ماڈل کے ٹینک چار سو پچاس ملین ڈالر میں خریدنے کے حامی تھے۔اور انکے بعد آنے والے جنرل جہانگیر کرامت نے ٹینکوں کی یہی ڈیل یوکرین سے کی اور تین سو بیس ٹینکوں کا سودا ساڑھے پانچ سو ملین ڈالر میں ہوا۔لیکن کہا جاتا ہے کہ عملی جامہ پہنتے پہنتے یہ ڈیل ملک کو ساڑھے چھ سو ملین ڈالر میں پڑی۔اس ڈیل میں عامل کردار کسی کرنل محمود نے ادا کیاجو جہانگیر کرامت کے بیج میٹ تھے۔میاں نواز شریف نےمیجر جنرل ذوا لفقار کو اس سودے کی چھان پھٹک کے سلسلے میں یوکرین اور آزر بائیجان بھیجا۔انہوں نے رپورٹ بھی مرتب کی مگر بعد میں انہیں واپڈا کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔
تئیس مارچ دوہزار ایک کے ڈان اخبار میں ایاز امیر کے کالم میں اسی موضوع کو اٹھاتے ہوئے یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح بے نظیر بھٹو کے دور میں فرانسیسی میراج بتیس نئے طیاروں کی ڈیل میں دلچسپی لینے والے ایک دلال کو فضائیہ کے سربراہ ایر چیف مارشل عباس خٹک سے ملوانے کے عوض ایک بااثر صاحب کی اس دلال سے دس لاکھ روپے کی ڈیل ہوئی لیکن جب دو بلین ڈالر کا سودا پروان نہیں چڑھا تو دلال نے ان صاحب کو رقم کی ادائیگی سے انکار کردیا اور یوں دونوں کی لڑائی ہوگئی۔
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق بعد ازاں چالیس سیکنڈ ہینڈ میراج خریدنے کا فیصلہ ہوا۔یہ ڈیل عباس خٹک کے زمانے میں ہی ہوئی۔اس وقت ڈائریکٹر جنرل ڈیفنس پروکیورمنٹ رئیر ایڈمرل سعید اختر تھے۔سودے کے بعد سعید اختر نے ریٹائرمنٹ لے لی اور یورپ چلے گئے۔رپورٹ کے مطابق اس سودے میں بیس ملین ڈالر کے لگ بھگ کمیشن لینے کا شبہہ کیا گیا۔اس تناظر میں جب وائس چیف آف ائیر سٹاف ایرمارشل ارشد چوہدری نے مبینہ طور پرصدر فاروق لغاری کو بے قاعدگیوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں سبکدوش کردیا گیا۔
اسی دور میں آرمی کے لئے تین ہزار سات سو لینڈ روورز جیپیں خریدنے کا فیصلہ ہوا۔یہی جیپیں اسی دور میں بنگلہ دیش کی آرمی نے بھی خریدی تھیں۔پاکستان اور بنگلہ دیش نے فی لینڈروور کیا قیمت ادا کی اسکا فرق ہی سارا کھیل واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔
ساؤتھ ایشیا ٹریبون میں اگست دوہزار تین میں ایک سابق فوجی افسر اور دفاعی تجزیہ کار اے ایچ امین کے نام سے ایک آرٹیکل شائع ہوا۔جس میں بتایا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں دفاعی سودوں اور دیگر گھپلوں کی تحقیقات کے مطالبے پر مبنی ایک پیٹیشن دائر کی گئی۔لیکن وہ سماعت کے لئے منظور نہ ہوسکی۔اس پیٹیشن میں دعوی کیا گیا کہ لینڈ روورز کی خریداری میں دو ارب روپے تک کا گھپلا ہوا۔جبکہ انیس سو چھیانوے میں آرمی کے لئے جی ایس نائٹی ساخت کی ایک ہزار سینتالیس جیپوں کی خریداری میں پانچ سو دس ملین روپے تک کا گھپلا ہوسکتا ہے۔کیونکہ ایک جیپ جس کی مارکیٹ ویلیو تیرہ ہزار ڈالر فی یونٹ تھی وہ بیس ہزار آٹھ سو اناسی ڈالر کے حساب سے خریدی گئی۔
جب نیب کا ادارہ تشکیل دیا گیا تو فوج اور عدلیہ کو اسکے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا۔جب نیب کے پہلے سربراہ جنرل امجد علی کو صرف نو ماہ بعد اس عہدے سے ہٹا کر دوبارہ کور کمانڈر بنادیا گیا تو دو ستمبر دو ہزار کو شائع ہونے والے برطانوی اخبار گارڈین نے اس پر خاصی حیرت کا اظہار کیا۔کیونکہ جنرل امجد کو نیب کا سربراہ بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ وہ ایک اصولی اور سخت گیر افسر تھے۔
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

اوپر کی ساری تحریر بی بی سی کی رپورٹ کا حصہ ہے اور ہم پڑھ کر ابھی تک اس سوچ میں گم ہیں کہ کیا ہماری فوج بھی کرپٹ ہوسکتی ہے اور اگر یہ سچ ہے تو پھر بی بی سی نے موجودہ فوجی افسروں اور حاکموں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ کیا بی بی سی کی نظر میں پہلے والی فوج کرپٹ تھی اور کیا اب جنرل صدر پرویز مشرف نے اپنے ادارے کو نیب کی مدد سے کرپشن سے پاک کردیا ہے؟ اسی لۓ کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج کے موجودہ نہیں بلکہ ریٹائرڈ جنرل دنیا کے امیر ترین جنرل ہوتے ہیں کیونکہ موجودہ جنرلوں کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کررہے ہیں۔