ماں کے دن پر ایکسپریس نیوز میں چھپی اس تصویر نے ہمیں ہماری ایک عزیزہ کی یاد دلا دی۔ ہماری عزیزہ کا بڑا بیٹا جب آٹھ سال کا تھا تو چارے والی مشین پر چارہ کاٹتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ مشین میں آ گئے اور وہ کہنیوں تک اپنے بازو کٹوا بیٹھا۔ اس کی ماں اسے تب تک اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی رہی جب تک اس کی شادی نہیں ہو گئی۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے ماں کو اس کے سارے کام کرتے دیکھا۔ لڑکا محنتی تھا اس نے محنت مزدوری کیساتھ ساتھ روزمرہ کے کام کاج بھی سیکھ لیے۔ ہم نے اسے موٹر سائیکل چلاتے دیکھا۔ اس نے آٹا پیسنے والی چکی لگائی۔ اڑھائی من گندم کی بوری اٹھانا اسکیلیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

معذوری کی وجہ سے اس کی شادی مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ جب وہ تیس کے پیٹے میں پہنچا تو وہ رقم دے کر کہیں سے اپنی بیوی خرید لایا۔ لڑکی نے چند ماہ بعد ہی اپنے لچھن دکھانے شروع کر دیے اور ایک دن بھاگ کر تھانے چلی گئی۔ اس نے باپ بیٹے اور بھائی کیخلاف حدود آرڈیننس کا مقدمہ درج کرا دیا۔ دونوں بھائی ایک سال تک جیل میں رہے اور ان کی ماں ان کی رہائی کیلیے دربدر پھرتی رہی۔ روزانہ روٹی لیکر دو گھنٹے کی مسافت طے کر کے جیل جاتی اور اس کو روٹی کھلاتی۔ بیٹوں کی ضمانت پر رہائی کے بعد انہوں نے لڑکی والوں کو کچھ دے دلا کر اپنی جان چھڑوائی۔

پھر ماں نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد بیٹے کی دوسری شادی کر دی۔ پھر کیا تھا ساس بہو کی لڑائی کے چکر میں ماں بیٹے میں ٹھن گئی اور وہ بیوی کو لیکر الگ ہو گیا۔ ایک دن وہ بھی آیا جب اس کی ماں جگر کے کینسر میں مبتلا ہو گئی اور اس نے بیمار پرسی تک کرنا گوارہ نہ کیا۔ ہم نے اپنی عزیزہ کے آخری دن اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جب وہ اپنے بیٹےسے آخری بار ملنے کیلیے التجائیں کرتی رہی مگر بیٹا اسے ملنے نہ آیا۔

اب قصور کس کا ہوا، بیٹے کا، بہو کا یا ماں کا؟