ایک بھائی وزیراعظم ہے اور جعلی ڈگری کے جرم میں اسمبلی کی رکنیت کھونے والے جمشید دستی کی ایک جلسے میں حمایت کر رہا ہے اور دلیل یہ دے رہا ہے کہ ڈگری کی شرط پرویز مشرف نے نوابزادہ نصراللہ خان کو اسمبلی سے باہر رکھنے کیلیے رکھی تھی۔

دوسرا بھائی ایک اور حلقے سے جعلی ڈگری کے چکر میں مستعفی ہونے والی امیدوار کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہے۔ جس دن وزیراعظم نے جمشید دستی کے لیے ووٹ مانگے اسی دن دوسرے بھائی نے جلسے میں عوام سے پوچھا کیا وہ جعلی ڈگری رکھنے والی امیدوار کو ووٹ دینا پسند کریں گے۔

اتنے پڑھے لکھے اور بااثر افراد اس طرح کی حرکت کر سکتے ہیں تو پھر عام آدمی حق بجانب ہے کہ وہ ہر طرح کے جھوٹ، مکر اور فریب سے اپنا کام نکالے۔

ہماری بدعا ہے کہ جمشید دستی اس الیکشن اس طرح ہارے کہ اس کی ضمانت ضبط ہو جائے۔ مگر لگتا ہے ہماری بدعا منظور ہوتی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ خدا دعائیں قبول کرتا ہے بدعائیں نہیں۔

یہ تحریر حامد میر کے کالم سے موخوذ ہے۔ ان کا کالم یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

اسی موضوع پر جاوید چوہدری کے دھواں دھار کالم یہاں اور یہاں پڑھیے۔