پاکستان کے ٹونٹی ٹونٹي کے سیمی فائنل ہارنے کی وجہ صرف اور صرف آخری اوورتھا۔ جب آفریدی نے آخری اوور کیلیے بال سعید اجمل کو تھمائی تو ہم نے اسی وقت کہا تھا کہ آفریدی نےا چھا نہیں کیا۔ دراصل آخری اوور میں فاسٹ باولر کی بجائے سپنر کو چھکا مارنا زیادہ آسان ہوتا ہے اور وہ بھی جب ایک منجھا ہوا بیٹسمین بیٹنگ کر رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عامر کے آخری دو اوورز میں زیادہ رنز نہیں بنے۔ آفریدی کو باولنگ ایسے ترتیب دینی چاہیے تھی کہ آخری اوور عامر کا آتا تا کہ وہ باولر کو چھکے مارنے سے روک سکتا۔

سعید اجمل نے مائیکل ہسی کو تین بال ایک ہی جگہ پر کرا کر میچ ہروا دیا۔ سعید کو جب پتہ تھا کہ مائیکل ہسی آن سائیڈ کا بیٹسمین ہے تو پھر اسے فیلڈ سیٹ کر کے آف سائیڈ پر زیادہ باولنگ کی کوشش کرنا چاہیے تھی۔

پاکستان نےپہلی اننگ میں 191 رنز بنائے تو اس کی جیت یقینی نظر آ رہی تھی کیونکہ دس رن کی ایوریج پوری اننگ میں رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مگر آسٹریلین نے بھی ہار نہیں مانی اور مقابلہ آخری اوور تک کیا۔

پچھلی پوسٹ میں ہماری ساری تجاویز پر عمل کیا گیا سوائے ایک کے یعنی عبدالرزاق کو باولنگ کیلیے موقع نہ دینا۔ آخری اوور ہر حال میں عبدالرزاق کو دینا چاہیے تھا جو اپنی نپی تلی باولنگ کی وجہ سے ہسی کو چھکے مارنے سے روک سکتا تھا۔ اسے بال یارکر کرانی بھی آتی تھی اور وہ بال کنٹرول بھی کر سکتا تھا۔ یارکر پر چھکا مارنا دنیا کا انتہائی مشکل کام ہے۔

اگر عبدالرزاق کو درمیان میں اس وقت ایک اوور دے دیا جاتا جب سپنرز کی پٹائی ہو رہی تھی تو بھی صورتحال مختلف ہوتی۔ عبدالرزاق وہ کھلاڑی ہے جس نے آئی سی ایل میں اپنی ٹیم کو ٹرافی دلوائی۔

چلیں مقابلہ یک طرفہ نہیں رہا اور پاکستان نے آخری دم تک کھیل کر ثابت کر دیا کہ وہ ایسے ہی سیمی فائنل میں نہیں پہنچا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ منزل پر پہنچ کر منزل ہاتھوں سے نکل گئی۔ ہو سکتا ہے اجمل کے آخری اوور کو سٹہ بازی کے زمرے میں ڈال دیا جائے مگر ہمارے خیال میں آج ہر کھلاڑی اپنی ذات سے زیادہ پاکستان کیلیے کھیلا۔

یقین کریں ابھی تک ہمارا دل زور زور سے دھڑک رہا ہے کیونکہ پاکستان کی 191 رنز کی اننگ کے بعد ہمیں آخر تک یقین تھا کہ پاکستان سیمی فائنل جیت جائے گا اور ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ پاکستان سیمی فائنل ہار گیا ہے۔