منیر نیازی [1928-2006] پنجابی اور اردو کے مشہور شاعر جناح ہسپتال میں انتقال فرماگۓ۔ ان کے گھر والوں کے مطابق انہوں نے سانس کی تکلیف کی شکایت کی اور بعد میں دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔

انہوں نے اردو اور پنجابی میں چودہ کتابیں لکھیں۔ وہ تھوڑے سے شرمیلے، سیدھے سادھے اور اپنے اوپر اعتماد کرنے والے انسان تھے۔

ان کا فلم شہید کیلۓ لکھا ہوا گانا جو نسیم بیگم نے گایا “اس بیوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو” ابھی تک ایک یادگار گانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔

منیر نیازی کو کمالً فن ایوارڈ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز نے 2002 میں دیا۔ اس سے پہلے حکومتً پاکستان نے 1992 اور 1998 میں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ 

منیر نیازی کو ہم نے اچھے وقتوں میں سنا اور پڑھا۔ وہ ایک وکھرے ٹائپ کے شاعر تھے۔  آخری عمر میں اپنی خاموشی کا راز وہ اپنے ساتھ ہی لے گۓ۔ انہی کے کچھ اشعار انہی کی یاد میں

کُج اُنج وی راہواں اوکھیاں سن

کُج گل وچ غم دا طوق وی سی

کُج شہر دے لوک وی ظالم سن

کُج مينوں مرن دا شوق وی سی

 

بیھٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آکے سامنے

میں ہی بس ہوتا ہوں اس کی ادا کے سامنے

تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کرگئ

دیر تک بیٹھا رہا میں اس ہوا کے سامنے

رات ایک اجڑے مکاں پہ جا کے جب آواز دی

گونج اٹھے بام و در میری  صدا  کے  سامنے

وہ رنگیلا ہاتھ میرے دل پہ اور اس کی مہک

شمع دل بجھ سی گئ  رنگِ حنا  کے سامنے

میں تو اس کو دیکھتے ہی جیسے پتھر ہوگیا

بات تک منہ سے نہ نکلی بے وفا کےسامنے

یاد بھی ہیں اے  منیر اس  شام  کی  تنہائیاں

ایک میداں، اک درخت اور تو خدا کے سامنے

 

خود کلامی

مر بھی جاؤں تو مت رونا

اپنا ساتھ  نہ  چھوٹے  گا

 تیری  میری  چاہ  کا بندھن

موت سے بھی نہ ٹوٹے گا

میں بادل  کا بھیس بدل  کر

تجھ  سے  ملنے آؤں   گا

تیرے گھر کی سونی چھت پر

غم  کے  پھول  اگاؤں  گا

جب  تو  اکیلی  بیٹھی ہوگی

تجھ  کو  خوب  رلاؤں  گا