آج بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے اور اکثریت کا خیال ہے کہ عوام کو ریلیف ملنے کی بجائے ان کی زندگی مزید تنگ کر دی جائے گی۔ مگر پچھلے بجٹوں کی روایت کو دیکھا جائے تو بجٹ انتے سخت نہیں ہوتے بلکہ بجٹ کے بعد سخت فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافے کا اعلان ہو گا جس پر پارلیمنٹ میں تالیاں بجائی جائیں گی۔ نہ پٹرول مہنگا ہو گا، نہ ویٹ یعنی ویلیو ایڈڈ ٹیکس لگے گا اور نہ اشیائے صرف مہنگی ہوں گی۔ اس طرح حکومت اگلے چند روز اپنے بجٹ کی داد وصول کرتی نظر آئے گی۔

اصل بجٹ تو سارا سال پیش ہوتا رہے گا اور اس کی منظوری پارلیمنٹ سے بھی نہیں لی جائے گی۔ پچھلا سارا سال پٹرول، گیس اور بجلی مہنگی کی گئی جس کی وجہ سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ویٹ کا اطلاق بھی جولائی میں ہو گا اور اس کی منظوری بھی پارلیمنٹ سے نہیں لی جائے گی۔ حزب اختلاف بھی ویٹ کیخلاف کوئی احتجاج نہیں کرے گی۔ ویٹ پر جاوید چوہدری کا کالم پڑھنے کے لائق ہے۔

ہمارے اس بجٹ کی اہمیت اس بات سے واضح ہو جاتی ہے کہ یہ بجٹ وزیرِ خزانہ کے بغیر تیار ہوا ہے۔ حکومت نے اپنی پچھلے سال کی روایت کو برقرار رکھا ہے اور اپنے اس عمل پر وہ شرمندہ بھی نہیں ہے۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ بجٹ حکومت نے نہیں بلکہ قرض دینے والے بنیوں نے تیار کیا ہے۔