سيد عدنان کاکاخیل کي اس تقرير کا آجکل بہت چرچا ہے جو انہوں نے جنرل صدر مشرف کے سامنے کي۔ اس تقرير کا متن ہم يہاں پر اپنے نوٹ کے ساتھ شائع کررہے ہيں تاکہ پڑھنے والے اس مقرر کي صلاحيت کو داد دے سکيں اور دوسري طرف صاحبِ صدر کي لاپرواہي کو کوس سکيں۔

یہ تقریر جامعہ علومیہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک باریش نوجوان سیدعدنان کاکاخیل جو ایم ایس سی میتھیمیٹکس ہیں نے کنویشن سینٹر اسلام آباد میں پاکستان یوتھ کنونشن 2006 کی تقریب میں کی تھی۔اس تقریب کی صدارت جنرل صدر پرویز مشرف کررہے تھے اور سٹیج سیکریٹری مسل لیگ ق کے جنرل سیکریٹری سید مشاہد حسین تھے۔  اس تقریر کا آجکل  ہرطرف چرچہ ہے۔ لوگ موبائل فونوں پر اسے کان لگا کر سن رہے ہیں اور یہ انٹرنیٹ پر بھی ریکارڈ حد تک دیکھی جارہی ہے۔

“میرے ساتھیوں نے کل بھی اس موضوع پر بہت اچھی باتیں کیں۔ آج کوشش کروں گا انہیں باتوں کی روشنی میں ان کو مختصر انداز سے پیش کروں۔

اس میں دوراۓ نہیں ہیں کہ ہمارا سب سے بڑا بحران نظریاتی یکجہتی، فکری وحدت، فکری یکجہتی اور اتفاق و اتحاد سے محرومی ہے۔

مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ محرومیاں اٹھاون سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کیوں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جو بنیادی پلیٹ فارم دیا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ اس پر کنفیوڎنز پیدا کردی گئیں۔

ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ابھی تک پوچھا جارہا ہے کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا۔ قائد کا وڎن کیا تھا۔ کیا یہ چیزیں بہت واضح نہیں ہیں۔ اور کیا اس سوال کا جواب آپ یا میں دے سکتے ہیں یا وہ نسل دے سکتی ہے جس نے تخلیق پاکستان کے خاکے میں اپنے خون سے ربگ بھرا تھا۔ یہ ان کی روحوں کے ساتھ مزاق ہے۔ یہ انکی قربانیوں کا مزاق ہے کہ جی آپ تو کٹ مرے ہمیں سمجھ ہی نہ آیا کہ آ٫ کا مسئلہ کیا تھا۔ ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ امن و امان کی دگرگوں چورتحال ہے اور بدقسمتی سے اس کو بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ اسلام ذمہ دار ہے۔ حالانکہ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سب سے زیادہ اسلام امن و امان کے اوپر زور دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم کی دعا کو ذرا دیکھۓ۔ معیشت کی بات بعد میں کرتے ہیں اکانومی کی بعد میں، پہلے امن کی بات کرتے ہیں۔

فرامتے ہیں “الہی میری اس بستی کو امن کا گہوارا بنا دے” پھر فرماتے ہیں “اس میں رہنے والوں کی معیشت بھی ٹھیک کردے”۔ اللہ تعالٓی بھی جب اپنے انعامات گنواتے ہیں تو فرماتے ہیں ابراہیم کو کہ “ہم نے آپ کو ایک اسی جگہ بسایا، جس کو بار بار آنے کی جگہ اور امن کا گہوارا بنایا”۔

یہ تو بات بالکل واضح ہے۔ مسئلہ یہ ہے ہمارا امن و امان تباہ کیوں ہوا۔ ہمارا نوجوان کس طرح دہشت گردوں کا آلہ بنا اور ہم روز بروز لاقانونیت کی دلدل میں کیوں دھنسے جارہے ہیں۔

جناب صدر، نوٹ کرنے کی بات ہے کہ یہ سبق اس کو کسی مزہب نے نہیں سکھایا یہ سبق اسے کسی دین نے نہیں بتایا۔ یہ طبقاتی تفریق۔ استحصالی نظام، ٹيلنٹ کی بے قدری، تعلیمی ڈھانچے کا کھوکھلا پن، بے انتہا کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال، وہ خوفناک مسائل ہیں جو نوجوان کو اس طرف لے کر گۓ ہیں۔ آپ یہ مسائل حل کر دیجۓ پھر دیکھۓ یہ نوجوان دہشت گرد ہے امن پسند ہے۔

ہمارا تیسرا سب سے بڑا مسئلہ جو اس وقت بہت اہمیت کا حامل ہے، جمہوری روایات کا فقدان۔ ہم ابھی تک حقیقی جمہوری کلچر اور عوامی مینڈیٹ کے احترام کے ماحول کو پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں، انتخابی دھاندلیاں اور جناب صدر اہم قومی مسائل میں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کی روایات نے عوام کا اعتماد موجودہ سیاسی نظام سے اٹھا دیا ہے۔ اس کیلۓ ہمیں اپنے اس پڑوسی ملک سے سبق سیکھنا چاہۓ جہاں سے مشاہد صاحب تشریف لاۓ ہیں اور آپ عنقریب جانے والے ہیں۔ ان کی اور ہماری تاریخ آزادی ایک ہی ہے۔ ہمیں اور ان کو ایک جتنا وقت ملا ہے انہوں نے اپنے ہاں جمہوری اقدار کو اتنا مضبوط کردیا ہے کہ حکومت کتنی ہی ناکام کیوں نہ ثابت ہوجاۓ، کوئی بھی افتاد ٹوٹ پڑے، یہ نہیں ہوسکتا کہ فوج بیرکوں سے نکلے اور اقتدار میں آکر بیٹھ جاۓ۔

۔ا س طرح جناب صدر میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج اس ہال میں لگی قائد کی تصویر آپ سے پوچھ رہی ہے کہ جنرل تم تو سرحدوں کے رکھوالے ہو، تم کو ایوان اقتدار کی راہ کس نے دکھائی ہے۔ [تالیاں]

  جناب صدر، ہمارا تیسرا سب سے بڑا مسئلہ ایلیٹ کلاس اکانومی ہے۔ آپ کے اعداد و شمار کے جادوگر کہ رہے ہیں کہ معیشت ترقی کررہی ہے۔ زرِ مبادلہ کے زخائر بڑھ رہے ہیں۔ قرضے کم ہوگۓ ہیں۔ کشکول ٹوٹ گئ ہے۔ آپ بار بار کہتے ہیں کہ پہلے ہم مانگنے جاتے تھے اب ہم دینے جاتے ہیں۔ ادھر عوام حیران ہیں کہ خدایا کیا ماجرا ہے؟ معیشت ترقی کررہی ہے، غریب کا چولہا بجھ رہا ہے۔زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ روپے کی قیمت ڈیویلیو ہوتے ہوتے کہاں آ کھڑی ہوئی ہے [تالیاں]۔  

اس کے بعد ایک اور بات جناب صدر، آپ نے کہا کہ بسنت منانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اسلام صحت مند تفریح سے ہرگز منع نہیں کرتا بلکہ صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ مگر خدارا محروموں اور لاچاروں کی آرزوؤں کے مزار پر دھما چوکڑی نہ مچائی جاۓ۔ ٹھیک ہے لوگ انفرادی طور پر پتنگ اڑائیں کوئی اس کو حرام نہیں کہتا۔ لیکن جب غریب دیکھتا ہے میرے پیٹ میں روٹی نہیں اور میرا صدر پتنگ بازی کررہا ہے [تالیاں] تو وہ یوں سمجھتا ہے کہ جیسے ہمارے درمیان کوئی گیپ ہے۔ یہ ایسے ہے، ایک گھر کے اندر میت پڑی ہوساتھ والے گھر میں لوگ ڈرم بجا رہے ہوں اور کہ رہے ہوں کہ غم تو تمہارا ہے میرا نہیں ہے۔ تو اس کی کوئی بھی مزہب اجازت نہیں دے گا۔ ہر کوئی کہے گا کہ اس کا احساس کریں، اس کی اشک شوئی کریں۔

اس کے علاوہ جنابِ صدر ہم محسوس کرتے ہیں کہ بعض مسائل آپ کے لہجے کی کرختگی کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں۔ آپ بلوچستان کے عوام سے کہتے ہیں ہم تمہیں وہاں سے ہِٹ کریں گے تمہیں پتہ ہی نہیں چلے گا کہ ہم نے تمہیں کہاں سے ہِٹ کیا ہے۔ آپ قوم کے بڑے ہیں، آپ کو قوم سے بالکل اسطرح گفتگو کرنی چاہۓ جس طرح آپ اپنے بیٹے بلال سے گفتگو کرتے ہیں ۔ وردی کے بارےمیں آپ نے چودہ کروڑ عوام کے سامنے خود کہا تھا کہ میں اکتیس دسمبر کو وردی اتار دوں گا، پھر قوم کے وسیع تر مفاد میں آپ وعدے سے مکر گۓ”۔ [تالیاں]۔

اس تقریر کے بعد جنرل مشرف نے یہ کہا “آپ ایسی باتیں وردی والے کے دور میں ہی کرسکتے ہیں اور اگر کسی اور کے دور میں کرتے تو آپ کا مستقبل کیا ہوتا”۔

بات عدنان اور جنرل صدر صاحب دونوں کی ٹھیک ہے مگر اس پراثر تقریر کا حاصل کچھ نہیں نکلا۔ ابھی تک وہی ہورہا ہے جو اس تقریر سے پہلے ہورہا تھا۔

ہم پہلے بھی کہ چکے ہیں کہ میڈیا کو آزادی تب تک ہے جب تک وہ بے اثر ہے اور حکومت کیلۓ مسئلہ پیدا نہیں کررہا۔ آپ نے دیکھا ہی ہے کہ جس جس نے حکومت کیلۓ مسئلہ پیدا کیا وہ دوبارہ نظر نہیں آیا اور ابھی تک اس کے لواحقین اس کیلۓ احتجاج کررہے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ جس دن میڈیا کی آزادی نے عوام پر اثر کرنا شروع کردیا اور حکومت کو خطرہ محسوس ہوا اس دن سب کچھ بند ہوجاۓ گا۔