نوٹ: نذرحافی  صاحب ہمارے قاری ہیں اور انہوں نے ہمارے بلاگ پر گاہے بگاہے لکھنے کی درخواست کی ہے جو ہم نے قبول کر لی ہے۔

تحریر نذر حافی

کہتے ہیں کہ موسم بہت گرم تھا، سورج سے آگ برس رہی تھی،گرم لُو چل رہی تھی، انسان،جانور،چرند پرند ہر کوئی گرمی سے ہلکان تھا، درختوںکے پتے سخت گرمی میں جھلس رہے تھے۔ پھرکچھ دیر بعد گرم ہوائیں اپنے ساتھ بادل کا ایک ٹکڑااُٹھا لائیں، پانی کے قطروں نے زمین پر نگاہ ڈالی توانھیں ہر چیزگرمی اور حبس سے جھلستی ہوئی نظر آئی۔ کچھ قطرے برسنے کے لئے تیار ہوگئے لیکن کچھ کہنے لگے کہ ہم توبہت چھوٹے ہیں، ہم ناں ہی تواہلِ زمیں کی پےاس بجھا سکتے ہیں اورناں ہی بڑے بڑے کھیتوں کو سیراب کرسکتے ہیں۔ قطروں کے درمیان بحث وتکرار زیادہ بڑھی تو ایک قطرے نے ہوا کے دوش پر قدرے بلند ہونے کے بعد دوسرے قطروں سے پکار کرکہا

بھائیو! ہم اِس وقت تک کچھ نہیں کر سکتے جب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہیں گے۔ اگر ہم متحد ہوکرایک ہی مرتبہ برس پڑیں تو جان لوکہ ہم ہی وہ قطرے ہیں جو زمین کو جل تھل کر دیتے ہیں ، جو سیلاب لاتے ہیں ، جو طوفان برپاکردیتے ہیں، ہم ہی وہ قطرے ہیں جنہیں دنیا دریا اور سمندر کہتی ہے۔

دوستو! اگر ہم سمٹ کرمتحد ہوجائیں تو ہم ہی طوفان ،سیلاب ، دریا اور سمندر ہیں ۔ یہ کہہ کر اُس قطرے نے زمین کی طرف چھلانگ لگا دی، پھر اُس کے پیچھے پیچھے دوسرے قطرے بھی موسلا دھار بارش کی صورت میں اُترنے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے پرندے چہچہانے لگے،آبشاریں چھلکنے لگیں، کھیت سیراب ہو گئے اور ہر طرف جل تھل ہو گیا۔

بالکل اسی طرح کچھ روز پہلے جب دنیا کا بین الاقوامی ماحول بہت گرم تھا، امریکی سازشوں کی تپش سے ساری دنیا جھلس رہی تھی، غزّہ میں فلسطینی اِسرائیلی مظالم کی آگ میں جل رہے تھے، عراقی گھروں میں ننھے منّے بچّے اپنی زبانوں کو نکالے ہوئے خوراک اور ادویات کے لئیے سسک رہے تھے۔ ایسے میں صدرِامریکہ ( بُش) نے عراق میں قدم رکھا۔عراق جوانبیاء کی سرزمین ،شہداء کی بستی ، شیرِ خُدا کی سلطنت،سید الشہداء کی جاگیر ، کاظمین کا نگین اور سامرہ کاوارث ہے، گزشتہ کئی سالوں سے امریکی سازشوں کے الاﺅ میں جل رہا ہے، عراق میں بیواﺅں اوریتیموں کے بین پتھرو ںکوبھی رُلا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بش عراق کے دورے کے موقع پرایک پریس کانفرنس سے خطاب کر نے آیاتھا، یعنی لاشوں پر سیاست چمکانے آیا تھا وہ یتیموں اور بیواﺅں کے زخموں پرنمک چھڑکنے آیاتھا ۔ وہ مظلوم عراقیوں کو یہ بتانے آیا تھا کہ میں ہی تمہارا خیرخواہ ہوں۔ سب عراقی یہی سوچ رہے تھے کہ ہم فرعون وقت سے کیسے ٹکرا سکتے ہیں! ہم لاکھوں انسانوں کے قاتل کو کیسے ذلیل کرسکتے ہیں!۔ ہم اس کی دھمکیاں سننے کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتے ہیں! سب یہی سمجھ رہے تھے کہ ہم تو چھوٹے موٹے لوگ ہیں، ہم ناں ہی تو اہلِ فلسطین کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں اور ناں ہی عالمی طاغوت کو رسوا کر سکتے ہیں۔

سب خاموشی سے ایک دوسرے کا منہ تکے جارہے تھے۔ ایسے میں خدا نے اِن پست ہمتوں میں سے ایک کی ہمت بلند کی، ایک غیرت مند مسلمان کی رگِ حمیّت پھڑکی ، ایک جانبازعرب کے خون نے جوش مارا ، ایک فرض شناس صحافی نے اپنے قلم کو بند کر کے جیب میں ڈالتے ہوئے اپنے ارد گرد کھڑے دوستوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے ماحول کا جائزہ لیا۔ اُس نے دیکھا کہ سب ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں ۔اُس نے کھڑے ہو کر بھرے مجمع میں اپنا جوتا اُتار کربُش کے منہ پہ دے مارا، جب ایک جوتا نہیں لگا تو اُس نے دوسرا اُتار کر پھینکا،ہمیں یقین ہے کہ اگر اس کے پاس مزید جوتے ہوتے تو وہ ٹھیک نشانہ لگنے تک پھینکتا رہتا۔

اس نے بش کوجوتے مارکردنیا بھر کے مظلوموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اے مظلومو! تم جب تک بکھرے ہوئے ہو، دشمن تمہاری ناموس کے ساتھ کھیل رہا ہے،تمہاری زمینوں پر قبضہ کئے ہوئے ہے اورتمہاری دولت کو لوٹ رہا ہے لیکن ا گر تم متّحد ہو کر شیطانوں کو جوتے مارنے لگو تو پھر کوئی توپ تمہارے سامنے نہیں ٹھہر سکتی، کوئی ٹینک تمہارے شہروں کو نہیں روند سکتا، کوئی سپاہی تمہارے گھروں میں نہیں گُھس سکتا اور کوئی طاقت تمہیں غلام نہیں رکھ سکتی۔

آج غزہ، فلسطین، عراق، لبنان، کشمیر، پاکستان اورافغانستان کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے بجائے متحد ہو کر عالمی طاغوت پر جوتے برسائیں۔ اگر مسلمان متحد ہو جائیں تو اُن کا مقابلہ کوئی طاغوت نہیں کر سکتا۔

بارش کا پہلا قطرہ برس چکاہے امید ہے کہ جلد ہی جل تھل بھی ہو جائے گا۔