جس طرح کی خار آجکل ہمارے چند بلاگرز کے درمیان یہاں، یہاں اور یہاں چل رہی ہے یہ ان کا قصور نہیں ہے بلکہ وہ انسانی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ وہ انسان ہی کیا جو دوسرے سے چڑ نہ کھائے، یہی وجہ ہے کہ شاعر حضرات نے بھی اس موضوع کو نہیں چھوڑا اور اسی مخاصمت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے ہجو گوئی کی صنف متعارف کرائی۔ ہجو کے بارے میں وارث صاحب تفصیل سے بتا سکتے ہیں مگر ہم نے نصاب کی کتابوں میں یہی پڑھا ہے کہ ہم عصر کی برائی بیان کرنے کو ہجو کہتے ہیں۔

ہم نے بھی کالج کے زمانے میں ایک بےوزن ہجو لکھی تھی اپنے این سی سی انسٹرکٹر پر۔ ساری اب یاد نہیں لیکن شروع کچھ اس طرح ہوتی تھی۔

سنو لمبے سے مہدی کی چھوٹی کہانی

تھا سونے کا دانت جس کی نشانی

آپ یقین کریں اگلے دن وہ کالج کے گیٹ پر ہی ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ ہم جونہی دوستوں کیساتھ کالج میں داخل ہونے لگے تو اس نے ہم پر خرافات کی وہ بچھاڑ کی کہ ہم نے ہجو گوئی سے توبہ کر لی۔

شاعر چونکہ ادبی لوگ ہوتے ہیں اسلیے ہجو گوئی میں بھی ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ ہمارا چونکہ ادب سے اب دور کا بھی واسطہ نہیں رہا اسلیے ہم لوگ جب ہجو گوئی کو نثر کے انداز میں لکھتے ہیں تو نہ دیکھتے ہیں کہ سامنے عورت ہے یا مرد، چھوٹا ہے یا بڑا، بچہ ہے یا بزرگ، بس سب کو ایک لائن میں کھڑا کر کے گولی چلا دیتے ہیں۔

ہم ایک سینئر بلاگر ہونے کے ناطے دونوں بلاگرز پارٹیوں سے گزارش کریں گے کہ وہ ہجو گوئی کریں مگر براہ مہربانی ادب کا دامن نہیں چھوڑیں۔ لفظوں کا استعمال دیکھ بھال کر کریں۔ ویسے تو پہلے ہی سب جانتے ہیں کہ کیچڑ میں پتھر پھنکنے سے اپنے اوپر ہی چھینٹے پڑتے ہیں یعنی اگر آپ دوسرے کی خبر لیں گے تو وہ بدلے میں آپ کی خبر لے گا۔ تو پھر آپ میں اور اس میں کیا فرق رہ جائے گا۔ تاریخ میں کامیاب آدمی وہی رہا ہے جو خراب لوگوں سے دامن بچا کر نکل گیا۔ جس نے عامیانہ روش اختیار کی وہ عامیانہ موت ہی مرا اور اپنے پیچھے عامیانہ تاریخ ہی چھوڑ گیا۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس اچھے کام کی شروعات کون کرتا ہے۔ خدا ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمیں اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔