ہم لوگ کولہو کے بیل ہیں جو ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور اس چکر سے نکل ہی نہیں پاتے۔ جس بات کی رٹ لگانا شروع کرتے ہیں مہینوں اس کی جان نہیں چھوڑتے۔ انگریزی محاورہ “تھنک آؤٹ آف دا باکس” بہت مشہور ہے اور کمپنی کی میٹنگز میں اکثر احباب کا اس سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ بنتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کا بہترین حل نکالنے کیلیے ضروری ہے کہ ہم لوگ روائتی سوچ کی بجائے الگ قسم کا غور و خوض کریں۔ مثال کے طور پر اگر کسی سکول کا نتیجہ برا آتا ہے تو سب یہی کہیں گے کہ استاد نکمہ تھا۔ مگر وکھری سوچ کا مالک کچھ اور ہی سوچے گا۔ وہ یہ بھی کہ سکتا ہے کہ سکول کا ماحول پڑھائی کیلیے سازگار نہیں ہے، کوئی ایک نالائق طالبعلم سارے ماحول کو گندہ کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ویسے خاور صاحب کا بلاگ اس وکھری سوچ کی ایک عمدہ مثال ہے۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد اپنے قارئین سے گزارش کرنا ہے کہ وہ جب بھی تحریر پر بتصرہ کریں ایک تو موضوع سے نہ ہٹیں، دوسرے ذاتیات پر نہ اتر آئیں، تیسرے کوئی نیا مسئلہ کھڑا نہ کر دیں بلکہ جو لکھا گیا ہے اس پر اپنی وکھری قسم کی رائے دیں۔

اگر آپ تمام بلاگز کی تحاریر پر لکھے گئے تبصروں کا جائزہ لیں تو نوے فیصد موضوع سے ہٹ کر ہوں گے۔ اس طرح ایک تو لکھنے والے کی محنت ضائع ہو جاتی ہے دوسرے قاری کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ امید ہے تمام بلاگرز اور تبصرہ نگار ہماری گزارش پر غور کریں گے اور آج سے تبصرے کرتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں گے۔