جنگ کی خبر کے مطابق جسٹس جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ فہم و فراست بی اے کی ڈگری سے مشروط نہیں۔

 ہمیں نہیں معلوم محترم جسٹس صاحب نے یہ بات کس تناظر میں کی ہے۔ یہ بات تو دنیا جانتی ہے کہ فہم و فراست اور تعلیم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر تعلیم فہم و فراست کیلیے ضروری نہ ہوتی تو رب اپنے محبوب صلعم کو کبھی بھی پڑھنے کیلیے نہ کہتا۔ ہمارے نبی کی نبوت کا آغاز ہی پڑھنے سے ہوا تھا۔ ویسے بھی نبی پاک صلعم کا ارشاد ہے کہ تعلیم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔

آج کل جتنے بھی ترقی یافتہ ملک ہیں ان کے سربراہوں میں سے کوئی بھی انپڑھ نہیں ہے۔ اگر ہم لوگ تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو پھر زمانے کے جدید اوزاروں کو کیسے استعمال کر پائیں گے۔ یہ جاہل حکمرانوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہمارا ملک ابھی تک ترقی پذیر ہے بلکہ اب تو غریب ملک بنتا جا رہا ہے۔

تعلیم سے آدمی میں شعور اجاگر ہوتا ہے، وہ اچھے برے کی پہچان کرنے لگتا ہے اور گناہ کرنے سے پہلے سوبار سوچتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ بی اے کی شرط تعلیم یافتہ ہونے کیلیے ضروری نہیں مگر فہم و فراست کیلیے تعلیم کا ہونا ضروری تھا اور ضروری ہے۔