جھونکا والی میں امام کی مداخلت سے بچے کھچے ہندوؤں اور سکھوں کو بحفاظت ہجرت کرنے کی اجازت دے دی گئ اور وہ لوگ ہندوستان منتقل ہوگۓ۔ ہندوؤں نے اس کے صلے میں امام غلام نبی کو بہت ساری رقم اور زیورات انعام میں دیۓ جن کی اس نے جاگیردار کو خبر تک نہ ہونے دی اور وہ یہ رقم لے کر خود بھی لاہور منتقل ہوگیا۔

وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا اور امام غلام نبی جو اب لاہور میں ایک مسجد کا امام تھا حکومتوں کے اتار چڑھاؤ دیکھتا رہا۔ اس دوران خدا نے اسے سات بیٹوں سے نوازا۔ اس کثرتِ اولاد کی وجہ سے بعد میں اس نے مسجد کی امامت چھوڑ دی اور اپنی اولاد کی پرورش اپنی عربی بیوی کے ساتھ ملکر کرنے لگا۔ اس نے سب بچوں کو لاہور کے ماڈرن سکولوں میں داخل کرادیا اور ساتھ ساتھ گھر پر دونوں میاں بیوی بچوں کو اسلامی تربیت دیتے رہے۔ امام غلام نبی بچوں کو اسلامی تربیت کیساتھ ساتھ زمانے کی اونچ نیچ سے بھی آگاہ کرتا رہا۔ وہ لیاقت علی خان سے لیکر ایوب خان تک کا ہنگامہ خیز دور دیکھ دیکھ کر حیران ہوتا رہتا اور خدا سے ایک ہی سوال کرتا کہ اے خدا مسلمانوں کے حکمران کب اپنی رعایا کا خیال کریں گے۔

 پتہ نہیں یہ ایچی سن کالج کے ماحول کا اثر تھا یا امام غلام نبی کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئ تھی جو اس کا بڑا بیٹا محمد علی اپنے باپ کی دولت کے بل بوتے پر ایک ماڈرن کلچر میں پروان چڑھنے لگا۔ حالانکہ وہ پانچ وقت کا نمازی تھا اور ان نے ناظرہ کیستھ قرآن پڑھ رکھا تھا اور حافظ بھی تھا۔ پتہ نہیں اس کو کیا سوجھی کہ وہ مزہب سے بیزار ہونے لگا۔ اس نے مزہب کو پیچھے چھوڑا اور جدت پسندی کی طرف مائل ہوگیا۔ کبھی کبھار اس کا باپ دیکھتا کہ محمد علی رات کو اٹھ کر نماز پڑھ لیتا ہے مگر غلام نبی نے اسے بیٹے کا دکھاوا سمجھا اور وہ اس کی اپنے مزہب کی طرف واپسی کی طرف دعائیں کرنے لگا۔ غلام نبی نے اپنے پہلے بیٹے کی تربیت میں جو جو کمی چھوڑی تھی اور جس کو وہ بڑے بیٹۓ کی بےراہ روی کا ذمہ دار سمجھتا تھا وہ اس کا تجزیہ کرتا اور پھر دوسرے بیٹوں کی اس سے بھی اچھی تربیت کرنا شروع کردیتا۔

 ۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ پہلے بیٹے کے پٹڑی سے اترنے کے باوجود اس نے خدا پر مکمل بھروسہ رکھتے ہوۓ باقی بیٹوں کو بھی ایچی سن میں ہی پڑھانا جاری رکھا۔

جب محمد علی نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا تو سب گھر کی مخالفت کے باوجود اس نے آرمی میں جانے کا ارادہ کرلیا۔ اس نے آئی ایس ایس بی کا امتحان پاس کیا اور کاکول اکیڈمی ٹریننگ کیلۓ پہنچ گیا۔ امام غلام نبی نے اپنے بیٹے کی بے راہ روی کے باوجود اس سے ناطہ نہ توڑا بلکہ وہ اپنی بیوی اور دوسرے بیٹوں کیساتھ تواتر سے اسے ملنے کاکول اکیڈمی جاتا رہا۔ محمد علی نے اکیڈمی کے پہلے سال اول پوزیشن حاصل کی اور اس کا ماڈرن ازم اس کے افسروں کی نظروں میں اس کیلۓ ایک اثاثہ ثابت ہوا۔ اس کے استادوں نے اس کی مزہب سے بیگانگی اور ماڈرن خیالات کو خوب ہوا دی اور محمد علی اس خوبی کی بنا پر ہرادبی اور کھیلوں کے مقابلے جیتتا رہا۔ اس نے اپنے اساتزہ کیساتھ میل جول اپنے ساتھیوں کی نسبت زیادہ رکھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ ترقی کا یہی ایک زینہ ہے۔ صرف قابلیت آدمی کو معراج تک نہیں پہنچاتی بلکہ اچھے تعلقات قابلیت کو مزید چار چاند لگانے کیلۓ ضروری ہوتے ہیں۔ محمد علی کھلنڈرے ساتھیوں کیساتھ ملکر دنیا جہان کی مستیاں کرتا رہا۔ اس کا چوری چھپے کاکول سے راتوں کو بھاگ کر فلم دیکھنا،جوا کھیلنا اور شرطیں لگانا معمول بن گیا تھا۔ چونکہ وہ اپنے اساتذہ کی گڈ بک میں تھا اور اس کے اساتذہ جانتے تھے کہ وہ اپنے بیج میں ٹاپ کرے گا اسلۓ بعض اوقات وہ اس کی کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیتے تھے۔

محمد علی کی شخصیت  کا اپنے چھوٹے بھائی امجد علی پر اتنا گہرا تاثر تھا کہ وہ بھی اسی کے بہلاوے میں آکر اگلے سال کاکول اکیڈمی پہنچ گیا۔ امام غلام نبی نے پھر بھی اف تک نہ کی اور اپنی عبادت اور دعاؤں میں مزید اضافہ کردیا۔ امام غلام نبی کو یہ تو معلوم تھا کہ اس کے دونوں بڑۓ بیٹے اعتدال پسند اور روشن خیال ہیں مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ دونوں جوا بھی کھیلتے ہیں اور انگریزی فلمیں بھی دیکھتے ہیں۔

 امام غلام نبی کو کاکول اکیڈمی سے چڑ ہوچکی تھی اور وہ ہر وقت یہی دائیں کرنے لگا کہ اس کے دوسرے بچے کاکول اکیڈمی میں نہ جائیں۔امام غلام نبی کی دعائیں رنگ لائیں اور اس کے تیسرے بیٹے مدد علی نے کاکول اکیڈمی میں جانے کی بجاۓ، وکالت کرنے کی ٹھان لی اور ایچی سن کالج سے ہی ایف اے کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ مدد علی مزہب سے اتنا بیگانہ نہیں ہوا تھا جتنے اس کے دونوں بڑے بھائی ہوگۓ تھے مگر اس نے اپنے باپ کی عالم بننے کی خواہش کو ٹھکرا دیا۔ امام غلام نبی نے جب تیسرا بیٹا بھی ہاتھ سے جاتا ہوا دیکھا تو اس نے سوچا شائد اس نے جو مال سکھوں اور ہندوؤں سے لیا تھا وہ جائز نہیں تھا اور اس کی بے برکتی کی وجہ سے اس کی اولاد اس کے ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے۔ اس نے اپنی بیوی کو اپنی سوچ سے آگاہ کیا اور ساری دولت سے چھٹکارا پانے کا تہیہ کرلیا۔