پرانی بات ہے ہمارے محلے میں ایک خاندان کے بچے جسمانی طور پر بہت کمزور اور دبلے پتلے تھے۔ یہی وجہ ہے وہ جب بھی لڑتے، دوسرے  بچوں سے مار ہی کھاتے۔ مگر ان کی ایک عادت تھی کہ وہ لڑائی میں ہار نہیں مانتے تھے۔ وہ مار بھی کھاتے رہتے اور یہ فقرہ دہراتے رہتے “اب کے مار کے دیکھ”۔

یہی حال آج کل ہماری حکومت کا ہے۔ جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں جعلی ڈگری ہولڈرز کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے مگر ہماری حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ کتنے ڈھیٹ ہیں وہ ممبر پارلیمنٹ جن کی ڈگریاں جعلی قرار دی گئی ہیں مگر وہ اب بھی ڈھٹائی سے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ قانونی طور پر وہ تب تک ممبر پارلیمنٹ رہ سکتے ہیں جب تک الیکشن کمیشن ان کی رکنیت کینسل نہ کر دے مگر اخلاقی طور پر تو ان کا فرض بنتا تھا کہ وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے۔

لگتا ہے جعلسازوں کو یقین ہے کہ یہ جعلسازی ان کے دوبارہ منتخب ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ اس لیے انہیں مستعفی ہونے کی جلدی نہیں ہے۔ ویسے بھی وہ چاہتے ہیں جتنے دن ممبر پارلیمنٹ رہ کر قوم کا خزانہ لوٹ سکیں لوٹ لیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نوکری سے کسی کو نکالنا ہو تو اسے کوئی نوٹس نہیں دیا جاتا بلکہ ایک دم اسے اپنا بوریا بستر سمیٹنے کا حکم ملتا ہے تا کہ وہ کمپنی کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ بعض اوقات تو ملازم کو اگلے دن دفتر میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور گیٹ پر ہی فارغ کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہماری حکومت اور انتظامیہ ہے کہ جعلسازوں کو مزید وقت دے رہی ہے کیونکہ نہ تو قومی خزانہ ان کے باپ کا ہے اور نہ ملک۔