آج کے اکثر مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے دعاؤں کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔ بنی اسرائیل کو جب حضرت موسیٰ  نے جنگ پر جانے کو کہا تو انہوں نے کہا یہ تمہارا اور خدا کا معاملہ ہے ہم کچھ نہیں کرنے والے۔ تم جانو اور تمہارا خدا جانے۔

یہی حال اب مسلمانوں کا ہے۔ ہماری ادائیں کچھ ہوتی ہیں اور ہماری دعائیں کچھ۔ ہم وہ مانگتے ہیں جس کی کوشش نہیں کرتے اور خدا کا یہ فرمان بھول جاتے ہیں کہ خدا نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کو اپنی حالت خود بدلنے کا خیال نہ ہو۔

اب رمضان شروع ہو چکا ہے اور مسلمانوں نے زور وشور سے عبادت شروع کر دی ہے اور دعائیں مانگنے لگے ہیں مگر ادائیں اپنی نہیں بدلیں گے۔ مکر و فریب، دھوکہ، فراڈ، غداری، جھوٹ اور آپس کے لڑائی جھگڑے ہوتے رہیں گے اور ساتھ تراویح بھی پڑھیں گے اور روزے بھی رکھیں گے۔ کچھ لوگ روزوں کے احترام میں اس طرح کی بری عادتیں معطل کر دیں گے اور رمضان کے بعد پھر وہی پرانی روش۔

خدا ہمیں وہی دعائیں مانگتے کی توفیق عطا فرمائے جن کی قبولیت کیلیے ہم خود بھی جدوجہد کر سکیں۔ آمین