گراؤنڈ زیرو نیویارک میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں نو گیارہ کو دو جڑواں میناروں کیساتھ جہاز ٹکرائے تھے اور دونوں مینار زمین بوس ہو گئے تھے۔ گراؤنڈ زیرو کے محلے میں سٹی نے ایک بہت بڑی مسجد بنانے کی منظوری دی ہے اور آج کل یہ مسجد امریکیوں کے درمیان بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ ایک حالیہ سروے میں امریکیوں کی اکثریت نے اس مسجد کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے پرل ہاربر میں جاپانیوں کی یادگار بنا دی جائے۔ پرل ہاربر پر جاپان نے حملہ کیا تھا اور اس کے بعد امریکہ دوسری جنگ عظیم میں کود پڑا تھا۔

امریکیوں کی اکثریت یہ تو مانتی ہے کہ وہاں پر مسجد کی تعمیر قانونی حق ہے مگر وہ پھر بھی اس کی تعمیر کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس مذہب کے دہشت گردوں نے ہزاروں امریکی ہلاک کر دیے ان کی عبادت گاہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکتی رہے گی۔

یہ مسجد آنے والے سینٹ، کانگریس اور گورنرز کے انتخابات میں بھی اہم رول ادا کر سکتی ہے۔ گورنرشپ کا مقامی ڈیموکریٹ امیدوار اس مسجد کی تعمیر کے حق میں ہے مگر ریپبلکن اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ صدر اوبامہ نے مسلمانوں کے اجتماع میں مسجد کی تعمیر کی حمایت کی مگر بعد میں ڈر گئے اور کہا کہ مذہبی آزادی سب کا حق ہے مگر مسجد بنانے کا فیصلہ مقامی لوگ کریں گے۔ کئی ڈیموکریٹس نے بھی مسجد کی حمایت میں صدر اوبامہ کے پہلے  بیان سے دوری اختیار کر لی کیونکہ انہیں نومبر کے الیکشن کا سامنا ہے۔

سوچیں تو بات بڑی بھی اور نہ سوچیں تو کوئی بڑي بات بھی نہیں ہے۔ یہ مسئلہ بھی وقت کی دھول میں اسی طرح دب جائے گا جس طرح صدر زرداری کی غلطیاں عوام بھول جاتے ہیں۔ نیویارک کے ڈاؤن ٹاؤن میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے اور ان کیلیے عبادت گاہ کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ اب جب ان کی امید پوری ہونے کا وقت آیا تو مسجد کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا۔

یہ مسئلہ چونکہ میڈیا میں آ چکا ہے اس لیے ہمیں لگتا ہے مسجد کے پروجیکٹ کا بھی وہی حال ہو گا جو کئی سال قبل دبئی کی کمپنی کے ایئرپورٹس کی سیکیورٹی کے ٹھیکے کا ہوا تھا یعنی مسجد کا پروجیکٹ میڈیا کی بدولت سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے گا