ہم کافی عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی مخلص لوگ پاکستان کے غیر ترقی یافتہ ہونے اور پاکستانی معاشرے کے انحطاط کا ذمہ دار چند طبقوں کو قرار دے رہے ہیں۔

 ملا کی بات کرنے سے پہلے آئیں پہلے لفظ ملا سے مراد کیا ہے اس پر غور کرلیں۔ ہماری نظر میں ملا سے مراد مسجد کے وہ امام جو قرآن حفظ کرنے کے بعد بناں اسلام کی مکمل تعلیم حاصل کئے مسلمانوں کی رہنمائی کے دعویدار ہیں۔

 کچھ لوگ ملا کو ہی اسلام کا نمائندہ کہ کر مزہب اسلام کی خوب خبر لیتے ہیں۔ مثلا ملا سے مراد مزہب اسلام کی دقیانوسی یا اسلام کا جدیدیت سے انکار۔ کچھ لوگ ملا کو دہشت گرد کہتے ہیں، کچھ انتہا پسند اور کچھ جہادی۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ملا کو روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی ضد قرار دیتے ہیں۔

 جو لوگ ملا کو پاکستان کی تنزلی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ان کی نظر میں ملا نے معاشرے کو انپڑھ رکھا اور لوگوں کی سوچ کو پنپنے نہیں دیا۔ ملا نے خود کو اسلام کا دعویدار کہلوایا اور جس نے اس کی بات نہیں مانی اسے کافر قرار دے دیا۔ ملا کا کردار پاکستان بننے سے اب تک ایک ہی رہا ہے اور اس میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی قرآن حفظ کرنا، وہی استاد سے اسلام کی بنیادی تعلیم حاصل کرنا اور پھر مسجد سنبھال لینا۔ اب تک پاکستان میں اسلامی تعلیم کا ایک آدھ ادارہ ایسا ہے جو پڑھے لکھے ملا یعنی عالم پیدا کررہا ہے مگر ان عالموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور عام ملاؤں کی اکثریت ان عالموں کی موجودگی کا پتہ تک نہیں چلنے دیتی۔

اسی طرح ملٹری نے پاکستان بننے کے بعد سے لے کر آج تک حکومت میں صرف اپنی ٹانگ ہی نہیں اڑائے رکھی بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس سے زیادہ پاکستان کا کوئی بھی خیرخواہ نہیں ہے۔ ملٹری نے ہمیشہ اپنے آپ کو سول لوگوں پر اولیت دی اور عام آدمی کو بلڈی، ایڈیٹ اور تھرڈ کلاس شہری کہہ کر پکارا۔ پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں ملٹری نے ستائیس سال براہ راست اور باقی عرصہ پس پردہ حکومت کی ہے۔

بیورکریسی انگریز کی ایک ایسی مشینری تھی جس کی مدد سے اس نے ہندوستان پر سو سال تک حکومت کی۔ مقامی لوگوں میں سے ہی اونچی ذات کے لوگوں کو چن کر انہیں اپنے طریقے سے تربیت دی اور پھر ان کو لاٹ صاحب بنا کر لوگوں پر مسلط کردیا اور خود انگریز ان کی ڈور پکڑے اپنے اپنے بنگلوں میں بیٹھے رہے۔ جب پاکستان بنا تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ بیوروکریسی اور ملٹری کی تربیت کا سارا نظام بدل دیا جاتا اور اس کو اس طرح منظم کیا جاتا کہ سرکاری افسر عوام کے اچھے برے کے مالک بننے کی بجاۓ خادم بن کر میدان میں اترتے اور اپنے لوگوں کی خدمت کرتے۔ مگر کسی وجہ سے مقامی کالے گوروں نے بیوروکریسی کو اپنے مقاصد کیلۓ استعمال کرنے کیلۓ وہی تربیت دینا جاری رکھا جو گورے دے رہے تھے۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آج بھی بیوروکریسی اپنے آپ کو فرسٹ کلاس شہری سمجھتی ہے اور خود کو عام لوگوں سے الگ تھلگ رکھتی ہے۔

پاکستان بننے کے بعد جو سب سے پہلی کھیپ سیاستدانوں کی ہم پر مسلط کی گئ وہ جاگریداروں، صنعت کاروں اور سابقہ بیوروکریٹس پر مشتمل تھی۔ ان سیاستدانوں کی مدد کیلۓ ہماری وہی ملٹری تھی جس نے گوروں کے زیر سایہ تربیت لی ہوئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شروع میں ہی عوام کی خدمت کیلۓ مخلص لیڈر چننے کا طریقہ وضح کر لیا جاتا مگر چونکہ ساری لیڈرشپ خود غرض اور ملک کیساتھ مخلص نہیں تھی اسلئے کسی نے بھی لیڈرشپ کی تربیت کا بندوبست نہ کیا اور اب تک وہی خاندان اور وہی خودغرض لوگ پاکستانی عوام کی رکھوالی اس بھیڑیے کی طرح کر رہے ہیں جسے خربوزوں کی حفاظت کیلئے بٹھایا گیا تھا۔

اب تک ملا کا انپڑھ ہونا، ملٹری کا ایلیٹ کلاس ہونا، بیوروکریس کا چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اور سیاستدان کا کرپٹ اور غدار ہونا ایک ایسی روایت رہی ہے جس نے اپنے ہی عوام کو غلام بنا کے رکھا ہوا ہے اور ڈنگروں کی طرح آگے لگایا ہوا ہے۔ کسی نے عوام کی تعلیم اور بھلائی کیلۓ کبھی نہیں سوچا۔ جس نے بھی سوچا صرف اپنا پیٹ بھرنے کا سوچا۔  جس طرح ملا کی کم عقلی عوام کا شعور بیدار نہیں کرسکی، اسی طرح ملٹری ، بیروکریسی اور سیاستدان کی خود غرضی عوامی غربت کا سبب بنی ہوئی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب لوگ پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اگر ملا نے عوام کو جاہل رکھا تو عوام نے بھی اپنے لیے جاہل ملا چنے۔ اگر ملٹری نے براہ راست 27 سال تک عوام پر ڈکٹیٹرشپ نافذ رکھی تو عوام نے بھی ملٹری کے حکومت پر قبضے کی مخالفت نہیں کی۔ اگر بیوروکریٹ کالا صاحب بن کر عوام کے حقوق کو پامال کرتا رہا تو عوام نے بھی مخالفت نہیں کی۔ اگر سیاستدان عوام کیساتھ غداری کرتا رہا تو عوام بھی وہی سیاستدان بار بار چنتے رہے۔

ہماری نظر میں یہ بحث ایک گول چکر کی طرح ہے جو کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچے گی۔ لیکن اگر ہمیں کہا جاۓ کہ ان سب میں سے کون پاکستان کی تنزلی اور معاشرے کے انحطاط کا ذمہ دار ہے تو ہم عوام کا نام لیں گے۔ اگر لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں تو کیا ہوا ان کا دماغ اتنا تو کام کرتا ہے کہ وہ نیک اور مخلص لوگوں کو اپنا لیڈر چنیں۔ جو جو بھی ان کے حقوق غصب کرے ان کیخلاف مزاحمت کریں۔ اگر عوام متحد ہو کر تبدیلی کا فیصلہ کرلیں اور مخلص لیڈرشپ چن لیں تو دنوں میں اپنے حالات بدل سکتے ہیں۔

اگر ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کی بھلائی چاہتے ہیں تو ہمیں بدلنا ہوگا۔ جب عوام تبدلی کا ارادہ کرلیں گے تو ملا، ملٹری، بیوروکریٹ اور سیاستدان جو انہی کا حصہ ہیں خود ہی بدل جائیں گے۔