کافی دنوں سے ہم ثقیل مباحث کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور آج ہم نے سوچا ماحول کو خوشگوار بنایا جائے۔ اسلئے کل دوستوں کی محفل میں ایک لطیفہ سنا جو ہم یہاں پر شیئر کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ لطیفہ آپ نے پہلے بھی سن رکھا ہو مگرامید ہے دوبارہ سن کر بھی آپ لطف اندوز ہوں گے۔ اگر ہوسکے تو اس کے جواب میں آپ صاحبان کی طرف سے بھی ایک ایک لطیفہ ہوجائے تو ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا۔ اس لطیفے کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستانی سمارٹ دکھائے گئے ہیں اور دوسرے بے ایمان۔ امید ہے آپ سمارٹ والے پہلو کو مد نظر رکھ کر اس لطیفے کا مزہ لیں گے۔
تین پاکستانی اور تین ہندوستانی کرکٹ میچ دیکھنے کیلۓ ٹرین میں سوار ہونے لگے تو ہندوستانیوں نے اپنے اپنے الگ الگ ٹکٹ خریدے مگر پاکستانیوں نے صرف ایک ٹکٹ خریدا۔ ہندوستانیوں نے اس کی وجہ پوچھ تو پاکستانیوں نے کہا کہ بس دیکھتے جانا۔ جب ٹکٹ کلیکٹر ٹکٹ چیک کرنے آیا تو تینوں پاکستانی ایک ساتھ غسل خانے میں گھس گئے اور ایک نے ہاتھ باہر نکال کر ٹکٹ کلیکٹر کو ٹکٹ دکھا دیا۔
واپسی پر ہندوستانیوں نے پاکستانیوں کی نقل کرتے ہوئے صرف ایک ٹکٹ خریدا اور پاکستانیوں نے ایک بھی نہیں۔ ہندوستانیوں نے وجہ پوچھ تو پاکستانی کہنے لگے کہ بس دیکھتے جانا۔
جب ٹکٹ کلیکٹر ٹکٹ چیک کرنے آيا تو ہندوستانی ایک باتھ روم میں گھس گئے اور پاکستانی دوسرے باتھ روم میں۔ تھوڑی دیر بعد ایک پاکستانی باہر نکلا اور اس نے ہندوستانیوں کے باتھ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ٹکٹ چیکنگ کی آواز لگائی۔ ایک ہندوستانی نے جونہی ٹکٹ باہر نکالی، پاکستانی نے ٹکٹ جھپٹی اور اپنے باتھ روم میں گھس گیا۔
7 users commented in " آئیں ماحول خوشگوار بنائیں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackقرآن و سنہ ڈاٹ کام والوں کو ایک سافٹ ویئر انجینیئر کی تلاش ہے جو صحیح بخاری کے لیے جو ان کے پاس سکین کی ہوئ موجود ہے کے لیے تلاش کی سہولت کے ساتھ اور چیپٹر وائس ایک سافٹ ویئر اور ویب سائٹ کے لیے پروگرام بنا سکیں،رابطے کے لیے ای میلinfo@quran-o-sunnah.com,
phone no:0300-8464042
جو صاحب بھی دلچسپی رکھتے ہوں رابطہ کریں جزاک اللہ خیر،
کسی غریب دیہاتی کا لڑکا محنت مشقت کر کے کچھ پڑھ لکھ گیا اور باہر کے ملک چلا گیا۔ وہاں کچھ عرصے کے بعد سیٹل ہونے پر اس نے اپنے والد کو خط لکھا کہ ابا میں نے یہاں مکان کا بندوبست کر لیا ہے لہٰذا اب میری فیملی بھیج دیں ۔ غریب والد کو فیملی کے مطلب کا پتہ نہیں تھا۔ اس نے سکول سے واپس آتے ہوئے ایک لڑکے سے فیملی کا مطلب پوچھا تو اسے بھی پتہ نہ تھا مگر شرمندگی سے بچنے کے لئے اس نے فیملی کا مطلب بتایا۔ ”رضائی“ تو بوڑھے والد نے جواب میں لکھا ”بیٹا! تمہاری فیملی چوہے کھا گئے ہیں۔ تم وہاں نئی فیملی بنا لو۔
دو افینی بیٹھ کے افیون کھا رہے تھے ایک نے دوسرے سے کہا۔ ”اگر ایک ہاتھی درخت پر چڑھا ہوا ہے اور نیچے اترنا چاہتا ہے تو اسے کیا کرنا چاہئے۔؟ پہلا افینی کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا۔ ”اسے چاہئے کہ کسی پتے پر بیٹھ کر خزاں کا انتظارکرے۔“
مضامین پطرس میں سے ایک خصوصی اقتباس۔ میرا خیال ہے کتے پر اس سے زیادہ اچھا مضمون شاید ہی کسی نے آج تک لکھا ہو۔
“کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ معطل کردیتی ہے خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کردے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ ہر ایک کی طرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ کچھ ان کا شور، کچھ ہماری صدائے احتجاج (زیرلب) بےڈھنگی حرکات وسکنات (حرکات ان کی، سکنات ہماری۔) اس ہنگامے میں دماغ بھلا خاک کام کرسکتا ہے؟ اگرچہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم کہ اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارلے گا؟ بہرصورت کتوں کی یہ پرلےدرجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آکر کہہ دے کہ عالی جناب، سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چون وچرا کئے واپس لوٹ جائیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑکیں ناپنے میں گزاردی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے (قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیزومحترم کتا کمرے میں موجود ہو تو یہ مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں۔)“
پانی پانی کر گئي مجهے قلندر کی یه بات
مینوں دهرتی قلعی کرا دے میں نچاں ساری رات
افغان وفد کے دورہ پاکستان کے دوران کرزئی اپنے وفد کا تعارف کراتے ہوئے شوکت عزیز صاحب کو کہتے ہیں ۔۔ اور یہ ہیں ہمارے امن و عامہ کے وزیز۔۔ شوکت صاحب حیرت سے دریافت کرتے ہیں ۔۔ افغانستان میں امن کا وزیر۔۔ کرزئی جوابی طور پر کہتے ہیں آپ کے یہاں بھی تو پارلیمانی امور کے وزیر ہیں ہم نے کچھ کہا ؟
راشد کامران صاحب کا لطیفہ میں نے کچھ اس طرح سناہے اور جو موجودہ حالات سے ٹھیک ٹھاک ربط بھی رکھتا ہے :
حامد کرزئی اپنے اراکین وفد کا تعارف کراتے ہوئے ہیں کہ یہ ہیں فلاں صاحب، ہمارے وزیر ریلوے ۔ شوکت عزیز حیرت سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے ملک میں ریلوے کہاں اور اس کا وزیر کیسے ؟ تو کرزئی صاحب مسکرا کر کہتے ہیں کہ کیوں جناب آپ نے بھی تو وزیر قانون رکھا ہوا ہے !!
Leave A Reply