روشن خيال اور اعتدال پسند حکومت نے ايک اور تاريخ ساز کارنامہ انجام ديا ہے۔ پاکستان کي تاريخ ميں پہلي بار سپريم کورٹ کے چيف جسٹس کو معطل کرکے جوڈيشل کونسل کے سامنے پيش ہونے کا حکم ديا ہے۔

آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اپنی ایمانداری کی بھینٹ چڑھ گئے اور ہماری روشن خیال اور اعتدال پسند حکومت کو ان کے وہ کام ناگوار گزرے جو انہوں نے حکومت کی خرابیوں کو درست کرنے کیلئے کیے۔ سب سے پہلے انہوں نے سٹیل مل کے کیس میں حکومت کیخلاف فیصلہ دے کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی۔ اس کے بعد پنجاب حکومت کیساتھ بسنت کے موقع پر پتنگ بازی پر پابندی کا پھڈا کھڑا کیا۔ بعد میں پولیس کی خوب کھنچائی کی۔ ہمارا خیال ہے کہ حکومت کو ان کی گمشدہ افراد کے کیس میں رائے زنی پر بھی سخت اعتراض تھا۔ چیف جسٹس صاحب اپنے ریمارکس میں کئ دفعہ حکومت کو تنبیہ کرچکے تھے کہ وہ گمشدہ افراد کو ڈھونڈنے میں جان بوچھ کر سستی دکھا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی چیف جسٹس صاحب نے حکومت کے خلاف کئ کیسز میں بیانات دے کر اپنے لیے معطلی کا خدشہ کھڑا کر لیا تھا۔

آج وہی ہوا، صدر صاحب نے اپنے درآمد کنندہ دوہری شہریت والے وزیراعظم کی سفارش پر جسٹس افتخار چوہدری کو یہ کہ کر گھر بھیج دیا کہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کررہے تھے۔ سوچنے والی بات ہے ایک سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال حکومت کے کسی وزیر سے زیادہ نہیں کرسکتا۔ جہاں ساٹھ سے اوپر وزیر عوام کی دولت پر عیش کررہے ہیں وہاں اگر چیف جسٹس نے سرکاری گاڑی کا غلط استعمال کیا ہوگا یا گھر میں سرکاری نوکر رکھا ہوگا تو یہ کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔ ہماری نظر میں ان کا جرم یہی تھا کہ وہ کوشش کررہے تھے کہ حکومت کے غلط اقدامات کی نشاندہی کریں اور جہاں ضرورت پڑے حکومت کو غلط کام کرنے سے روکیں۔ جیسا کہ انہوں نے سٹیل مل کے کیس میں کیا۔

چیف جسٹس کی معطلی کے بعد حکومت اگر جیخ چیخ کر بھی اپنی راست بازی اور ایمانداری کا ڈھنڈورا پیٹے، پھر بھی کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوگا۔

ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ ہو سکتا ہے حکومت آنے والے وقت کی تیاری کررہی ہو۔ ہوسکتا ہے حکومت کے ذہن میں ملک میں ایمرجینسی یا مارشل لا نافذ کرنے کا پلان ہو اور اسے خدشہ ہو کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اس اقدام کو کہیں غلط قرار نہ دے دیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدر صاحب نے چیف جسٹس کر بلا کر اسی طرح کا فیصلہ کرنے کیلیے کہا ہو اور انکاری پر انہیں گھر بھیج دیا۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت سٹیل مل کی طرح کئ اور نجکاریوں کا پروگرام بنا رہی ہو اور اسے خدشہ ہو کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری پھر اس میں اپنی ٹانگ اڑا دیں گے۔ اسلئے بہتر ہے اس ٹانگ کو ابھی سے کاٹ دیا جائے۔

لیکن کبھی کبھی جب اقتدار کا نشہ آدمی کو اندھا کردیتا ہے تو اسے اچھے برے کی تمیز ختم ہوجاتی ہے ۔ وہ “سب سے پہلے پاکستان” کا نعرہ لگا کر دراصل “سب سے پہلے میں” کا ورد کررہا ہوتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ سچ کبھی نہیں مرتا اور جھوٹ جھوٹے کی لاش کیساتھ ہی دفن ہوجاتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں جن لوگوں نے قومی مفاد میں فیصلے کیے انہیں آج تک یاد کیا جاتا ہے اور جن لوگوں نے اپنے مفاد یا غیروں کے مفاد میں فیصلے کیے ان پر لوگ لعنت ہی بھیجتے ہیں۔

اب حکومت اس حد تک بڑھ چکی ہے اور وہ سوچنے لگی ہے کہ جو جتنا بھی اچھا ہے اگر ہمارے کالے دھندوں پر پردہ نہیں ڈال سکتا تو وہ ہمارا دشمن ہے اور اس سے گلوخلاصی حاصل کرنا ہمارا حق ہے۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نیک نیتی پر مبنی فیصلے زندہ باد، ملک کے غدار اور عوامی دولت لوٹنے والے مردہ باد۔