چیف جسٹس کو غیرفعال بنانے کے بعد بقول نزیر ناجی کے درانی صاحب، مشاہد صاحب، وصی ظفر صاحب اور ڈاکٹر شیرافگن صاحب پوری تندہی سے حکومت کے فیصلے کی تائید میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے ہوسکتا ہے یہ فصلہ کرنے سے پہلے ان لوگوں سے مشورہ تک نہ کیا ہو۔ اسے کہتے ہیں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونا۔

چیف جسٹس کو غیر فعال کرنے سے پہلے جس طرح ان کیخلاف مہم چلائی گئ اور پھر جس طرح یہ فیصلہ کیا گیا، آئیں اسے تصوراتی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔

تصور کریں کہ ایک اجلاس چیف جسٹس کو غیرفعال بنانے سےپہلے منعقد ہوتا ہے اور ایک غیر فعال بنانے کے بعد عوامی احتجاج کے دوران۔

پہلا اجلاس:

“افتخار نے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہے اس کا کچھ کرنا چاہیے”

“ہاں جناب آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ افتخار نے ہمارے سٹیل مل کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ہمیں کروڑوں کا نقصان پہنچایا، بسنت پر پابندی لگا کر ہماری روشن خیالی کو دھچکا لگایا۔ اس کا ضرور مکو ٹھپنا چاہیے۔ تاکہ اگلا آنے والا چیف جسٹس اس طرح من مانی کرکے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرسکے”

“ہاں اس نے لاپتہ افراد کی بازیابی کا ازخود نوٹس لے کر ہمارے لیے ایک اور مثیبت کھڑی کردی ہے”

“افتخار آئے دن اپنی عدالت میں افسروں کی بے عزتی کرتا رہتا ہے اور سمجھنے لگا ہے کہ وہ ہم سے بھی بڑا ہے”

“سر ایسا کریں نعیم بخاری سے کہیں کہ وہ افتخار کیخلاف ایک چارج شیٹ بنائے اور چیف جسٹس کر بھجوائے۔ یہ چارج شیٹ بعد میں ہم میڈیا کو لیک کردیں گے اور اس طرح آپ کو چیف جسٹس کو غیرفعال بنانے کا بہانہ ہاتھ آجائے گا”

“تم لوگوں کو پورا یقین ہے کہ اافتخار کر غیر فعال کرنے کے بعد کوئی شورشرابا نہیں ہوگا؟”

“ہاں جناب ہمیں پورا یقین ہے کہ لوگ احتجاج نہیں کریں گے۔ وہ آپ کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور پھر آپ کی دہشت ہی بڑی ہے”

“آپ کی عوام میں مقبلویت اتنی ہے کہ وہ آپ کو سب سے بڑا لیڈر اور رہنما مانتے ہیں۔ وہ آپ کے فیصلے کو تسلیم کرلیں گے”

“اگر وکیلوں نے احتجاج کیا تو؟”

“سر وکیل ایک دو دن احتجاج کریں گے پھر خاموش ہوجائیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان کا کوئی بھی ساتھ نہیں دے گا”

“اگر حزب اختلاف نے اس ایشو کو پکڑ لیا تو؟”

“سر حزب اختلاف اس سے پہلے بڑے بڑے ایشوز پر عوام کو باہر نہیں لاسکی۔ آپ کو معلوم ہے لوگ افغانستانے کے بارے میں ہمارا یوٹرن بھول گئے، پھر ہم نے حدود آرڈیننس کو سیکولر بنایا حزب اختلاف کچھ نہیں کرسکی۔ ہمارے دور میں مہنگائی کئ گناہ بڑھ چکی ہے اور لوگ سڑکوں پر نہیں آئے۔ سر آپ بے فکر رہیں، کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا اور اگر ہوا بھی دو چار دن میں دب جائے گا”

“عبدالقدیر خان کی نظر بندی سے بڑا کوئی واقع نہیں ہوسکتا۔ اگر عوام اس وقت چپ رہے تو اب چیف جسٹس کی معطلی پر بھی خاموش ہی رہیں گے”

“تم یقین سے کہ رہے ہو ناں کہ لوگ سڑکوں پر نہیں آئیں گے؟”

“ہاں سر، آپ نے دیکھا نہیں جب سے ہم نے کیبل اور ڈش کی کھلی چھٹي دے رکھی ہے لوگ گھروں سے باہر نکلنا ہی بھول گئے ہیں۔ اس پر ظرہ یہ کہ اب کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہورہا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں، لوگ میچ دیکھیں گے یا چیف جسٹس کی حکایت میں سڑکوں پر نکلیں گے۔”

“اب تم لوگوں کی ثوابدید پر میں یہ بڑا فیصلہ کررہاہوں۔ ویسے میں لوگوں سے ڈرتا بھی نہیں ہوں۔ اس سے پہلے میں نے کونسی عوام کی بات مان کر فیصلے کیے ہیں جو اب میں ان کی فکر کروں گا۔ عوام نے اگر سڑکوں پر آنے کی کوشش بھی کی، تو فوج کو بھیج دوں گا۔ اگر حالات بے قابو ہونے لگے تو ایمرجنسی یا مارشل لا لگا دوں گا۔”

“یہ بات آپنے بلکل ٹھیک کہی ہے۔ اگر عوامی احتجاج قابو سے باہر ہوا توآپ مارشل لا لگا دیجئے گا۔ اس طرح ہمیں اگلے انتخابات کی فکربھی نہیں رہے گی اور آپ کی حکومت چلتی رہے گی۔”

دوسرا اجلاس:

“مروا دیا ناں تم لوگوں نے ملکر۔ اب بتاؤ ان وکیلوں اور حزب اختلاف کا کیا کریں جو افتخار کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں”

“سر آپ فکر نہ کریں یہ چند روز کی بات ہے پھر حالات معمول پر آجائیں گے”

“اس دفعہ مجھے لگ رہا ہے یہ بحران میرے لیے خطرناک صورت اختیار کرجائے گا۔ ہمیں اس وقت افتخار کو غیر فعال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت تمہیں معلوم ہے امریکہ بھی اب خلاف ہوتا جارہا ہے۔ اس کی سپورٹ کے بغیر ہم اپنی لاکھوں کی تعداد میں فوج پر بھی بھروسہ نہیں کرسکتے۔ اگر امریکہ نے ساتھ چھوڑ دیا تو فوج کے اندر سے بھی بغاوت ہوسکتی ہے”

“سر کچھ نہیں ہوگا۔ آپ دیکھنا، وکیلوں کے سرغنہ کو ہم گرفتار کرلیں گے اور بعد میں ان کے حواری گھروں کو لوٹ جائیں گے”

“دراصل افتخار کو معطل کرنے میں ہم نے دیر کردی۔ ہمیں اسے سٹیل مل کے فیصلے سے قبل ہی گھر بھیج دینا چاہیے تھا۔ اب تم لوگوں نے میرا ساتھ دینا ہے۔ میڈیا پر میری حکومت کا دفاع کرو اور لوگوں کو بتاؤ کہ جو کچھ ہوا ٹھیک ہوا”

“ٹھیک ہے سر ہم ایسا ہی کرتے ہیں”
“فوج کو بھی تیار رہنے کا حکم دے دو۔ اگر حالات قابو سے باہر ہوئے تو میں مارشل لا لگا دوں گا”

“چوہدری صاحب آپ بھی کہتے تھے کہ افتخار آپ کی برادری کا ہے اور آپ اسے استعفے دینے پر راضی کرلیں گے”

“سر افتخار پر لیڈری کی دھن سوار ہوگئی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ آپ کا مقابلہ کرسکتا ہے اور لوگ اس کیساتھ ہیں۔ ہم نے تو اسے کافی سمجھانے کی کوشش کی کہ آرام سے گھر بیٹھے مگر وہ ماننے کو تیار ہی نہیں”

“اسے فی الحال کسی سے ملنے نہ دو اور جب تک جوڈیشل اس کیخلاف فیصلہ نہ دے دے اس کی نقل و حرکت محدود کردو”

“سر اگر اپوزیشن اس دفعہ عوام کو وکیلوں کی مدد سے سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوگئی تو؟”

“کچھ نہیں ہوگا۔ جاوید ہاشمی کی طرح دو چار اور پکڑ کر اندر کردیں گے اور بچ جانے والوں کو ویسے ہی چین آجائے گا۔”

“سر اگر وکیلوں نے ہار نہ مانی اور یہ بحران بہت پھیل گیا تو؟”

“پہلے مجھے تم نے یقین دلایا کہ افتخار کی معزولی کوئی بحران پیدا نہیں کرے گی اور اب تم مجھے ڈرانے کی کوشش کررہے ہو”

“میں ڈرنے والا نہیں ہوں۔ مارشل لگا دوں گا، سب کو اندر کردوں گا، گولی چلا دوں گا مگر اقتدار نہیں چھوڑوں گا”

“سر ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس بحران پر قابو پالیں۔ اگر ہم ناکام رہے تو جب آپ ماشل لا لگائیں تو پھر ہميں مت بھولئے گا۔ ہم سات سال سے آپ کے ساتھ ہیں اور آئندہ بھی آپ کیساتھ رہیں گے”