جنرل صدر پرویز مشرف نے آج پاکستان کی تیسری اور گہرے پانی کی پہلی بندرگاہ گوادر کا افتتاح کردیا ہے۔ یہ بندرگاہ چار سال کے ریکارڈ وقت میں برادر ملک چین کی مدد سے تعمیر کی گئ ہے اور یہ شاہراہ قراقرم کے بعد پاک چین دوستی کی دوسرے بڑی یادگار ہوگی۔ اس منصوبے پر تیس کروڑ ڈالر کی لاگت آئی ہے جس میں انیس کروڑ اسی لاکھ جمہوریہ چین نے ادا کئے ہیں۔  اس بندرگاہ کا انتظام سنگاپور کی ایک کمپنی کو سونپا گیا ہے اور یہ  بندرگاہ اگلے چالیس سال تک ٹيکس فری پورٹ رہے گی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ گوادر کا علاقہ دبئ سے بھی بڑا عالمی  تجارتی مرکز بن جائے گا۔

گوادر اس سے پہلے ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کے رہائشی مچھلیاں پکڑ کر اپنا گزارہ کرتے تھے۔ خدا نے ان کی سنی اور اس میگا پروجیکٹ کی بدولت ان کی مٹی سونا ہوگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ سونے کو مٹی کے بھاؤ بیچ کر کس نے مل بنایا۔

جنرل پرویز مشرف صاحب کے چند کارناموں میں سے یہ ایک بڑا کارنامہ بندرگاہ گوادر کی تکمیل ہے اور امید ہے بندرگاہ گوادر پاکستان کی ترقی میں بہت بڑا کردار ادا کرے گی۔

لازمی امر ہے کہ اس پروجیکٹ میں بھی حکومت کے باثر افراد نے مال بنایا ہوگا۔ اسی بندرگاہ کی بدولت گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور سنا ہے لوگوں نے پراپرٹی کے اس بزنس میں کافی کمایا ہے۔ پھر سنگاپور کی فرم کو جو ٹھیکا دیا گیا ہے اس میں بھی کسی نہ کسی نے کمیشن لیا ہوگا۔ مقامی لوگوں نے بھی پراپرٹی کے بزنس پر احتجاج کیا تھا اور انہیں اس بات کا گلہ تھا کہ انہیں ان کی زمین کی معقول قیمت نہیں دی گئ۔ اسی طرح مقامی لوگوں کا یہ استدلال بھی جائز تھا کہ اس بندرگاہ پر نوکریوں کیلئے انہیں ترجیح دی جائے۔  لیکن اس سب لوٹ مار کے باوجود موجودہ حکومت کا یہ بہت بڑا معرکہ ہے اور اس کے پاکستان اور خاص کر بلوچستان کی اکانومی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔