ہم نے سوچا ہے کہ “کیسے کیسے لوگ” کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس کے تحت ہم اپنے ارد گرد حقیقی کرداروں کی زندگی کے بارے میں لکھا کریں گے۔ یہ وہ کردار ہیں جن کیساتھ ہمارا تعلق رہا اور جن کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے ہم گواہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے آپ شخصی خاکہ بھی کہ سکتے ہیں۔  امید ہے ہمارے بلاگر دوست بھی کم از کم ایک کردار کے بارے میں اپنے بلاگ پر ضرور لکھیں گے۔

سب سے پہلے جس شخص کو ہم نے چنا ہے وہ ہمارا کالج فیلو تھا۔ اکرم بہت ذہین مگر گھریلو مسائل کا شکار تھا۔ اس پر ڈاکٹر بننے کا جنون سوار تھا اور اس نے پری میڈیکل میں داخلہ لے رکھا تھا۔ دوسال بعد جب ایف ایس سی امتحان ہوئے تو وہ فزکس اور کیمسٹری ميں فیل ہوگیا۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور اگلے سال پھر امتحان کی تیاری کرنے لگا۔ اگلے سال جب امتحانوں کا وقت آیا تو وہ شدید بیمار ہوگیا اور امتحان نہ دے سکا۔ اس سے اگلے سال اس کی تیاری میں پھر کوئی کسر رہ گئ اور وہ اتنے نمبر نہ لے سکا کہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکے۔ اس نے بی ایس سی میں داخلہ لینے کی بجائے ایک بار پھر ایف ایس سی کے امتحان کی تیاری شروع کردی۔ اس کی قسمت نے دھوکہ کیا اور وہ امتحان سے ایک ماہ قبل موٹر سائیکل کے حادثے میں اپنی تانگ تڑوا بیٹھا اور اس طرح وہ امتحان نے دے سکا۔ اگلے سال پھر وہ ایف ایس سی کے امتحان میں بیٹھا، اس کے نمبر پہلے سے زیادہ آئے مگر تب تک میڈیکل کالج ميں داخلے کا میرٹ زیادہ ہوچکا تھا اور وہ پھر داخلے سے محروم رہا۔

اس دوران ہمارے کئی دوسرے کلاس فیلو ایک دو بار ایف ایس سی کرنے میں ناکام رہنے کے بعد اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے۔ کوئی بنک میں کلرک بھرتی ہوگیا، کوئی مڈل ایسٹ اور جرمنی چلا گیا، کوئی والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا، تو کوئی واپس پولی ٹیکنیک میں چلا گیا۔

 ہمارے اس دوست نے جنگجو تیمور کی طرح ہمت نہ ہاری اور اگلے سال کے امتحان میں بیٹھنے کی پھر تیاری کرنے لگا۔ یہ تیمور وہی تھا جس نے کنویں پر بیٹھے ایک چیونٹي کو دیکھا جو بار بار دیوار پر چڑھنے کی کوشش کررہی تھی اور بار بار گر جاتی تھی۔ چیونٹی نے ہمت نہ ہاری اور آخری بار اس نے دیوار سر کر ہی لی۔ تیمور نے بھی شکست پر شکست کھائی مگر ہمت نہ ہاری اور آخرکار وہ جیت گیا۔ اسی طرح اکرم نے بھی اپنی دھن میں مگن رہنا سیکھ لیا تھا اور آخر کار اس نے ایف ایس سی پری میڈیکل کا امتحان اتنے نمبروں سے پاس کرلیا کہ اسے علامہ اقبال میڈیکل کالج میں داخلہ مل ہی گیا۔ جس سال اسے میڈیکل کالج میں داخلہ ملا اس سال ہم اپنی پڑھائی سے فارغ ہوکر نوکری کررہے تھے۔ ہمارے کلاس فیلو نے میڈیکل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور آخر کار ڈاکٹر بن کے ہی چھوڑا۔ یہ دوست آجکل گجرات میں ڈاکٹر اکرم کے نام سے پرائیویٹ پریکٹس کرتا ہے ۔

 اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر انسان ہمت باندھ لے تو پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت اس کے عزائم سے نہیں ہٹا سکتی۔ لیکن اگر دل ہی حرامی ہو تو پھر بہانوں کی کمی نہیں ہوتی۔ اسی لیے پنجابی میں کہتے ہیں “دل حرامی تے ہویتاں دا ڈھیر”۔