پرانے وقتوں میں کسی ملک کو فتح کرنے کیلیے اس پر فوج کشی کرنا پڑتی تھی اس کے بعد اس ملک پر وائسرائے لگا دیا جاتا تھا۔ وہ وائسرائے عام پبلک کو خوش کرنے کیلیے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر رکھتا اور عدل قائم کرتا۔ وہ ہر صوبے یا شہر میں راجہ مہاراجہ کی شکل میں مقامی کارندے عوام پر مسلط کر دیتا تا کہ وہ اپنے لوگوں سے ٹیکس یا لگان کی مد میں تاوان اکٹھا کرنے کا ذریعہ بنیں۔ اس کے بدلے قابضین کے مقامی غلام حاکموں کو ہر قسم کی کھلی چھٹی دے دی جاتی۔ وہ مال و دولت اکٹھی کرتے، ہر قانون سے مبرا ہوتے اور اس کے بدلے وہ قابضین کے مفادات کو پالتے۔
پھر وقت بدلا اور جنگ کے ذریعے فتح کیے گئے ممالک کو آزاد کر کے وائسرائے کی بجائے مقامی ذرخرید حاکموں کی خدمات حاصل کی جانے لگیں۔ یعنی جس طرح پہلے ایک ملک کو چھوٹے چھوٹے صوبوں، ضلعوں اور تحصیلوں میں‌بانٹ کر مقامی راجے مہاراجوں کے ذریعے ملک کو کنڑول کیا جاتا تھا اب اسی طرح بڑی طاقتوں نے دنیا کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں‌بانٹ دیا ہے یعنی تحصیلوں، اضلاع اور صوبوں کو ممالک، خطوں اور براعظموں کی شکل دے دی گئی ہے۔ کوئی ایسٹرن یورپ ہے تو کوئی ایشیا، کوئی مغرب ہے تو کوئی مشرق۔
اب ممالک کو جنگوں سے فتح کرنے کی بجائے معاشی طور پر غلام بنایا جانے لگا ہے اس کام کیلیے اس وقت ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ادارے بنائے گئے۔ بغاوت کرنے والے ممالک کا سر کچلنے کیلیے قانونی جواز کی ضرورت پڑی تو اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا‌۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے جہاں قابض ممالک پر ڈکٹیٹرشپ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں وہیں انہوں نے اقوام متحدہ میں اپنی ڈکٹیٹرشپ کیلیے ویٹو پاور بھی حاصل رکھی ہے۔
اس وقت دنیا کے غریب ممالک یعنی ترقی پذیر ممالک کی اکثریت بڑی طاقتوں کے پھیلائے معاشی جال میں پھنس چکی ہے اور انہیں اس جال میں پھنسانے والے قابضین ہی ہیں مگر انہوں نے اس جرم سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کیلیے مقامی غلام حاکمین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ قابضین جو ڈکٹیٹرشپ کی ذرا مخالفت نہیں کرتے انہیں جمہوریت کی تب ضرورت پڑتی ہے جب کسی ڈکٹیٹر کا تختہ الٹنا ہو۔ مگر مزے والی بات یہ ہے کہ جمہوریت کا استعمال صرف پرانے ڈکٹیٹر کو بدل کر نیا ڈکٹیٹر لانے کی حد تک ہوتا ہے۔ اس کی تازہ مثال تیونس اور مصر کے موجودہ دکھاوے کے انقلاب ہیں۔
جس طرح پرانے زمانے میں ممالک کو فتح کرنے کے بعد  سپہ سالار اپنے رکھے جاتے تھے اسی طرح اب مفتوح ممالک کی افواج کو قابو میں‌رکھا جاتا ہے تا کہ اگر قابضین کی مرضی کیخلاف عوام ڈکٹیٹر کو بدلنے کیلیے تحریک شروع بھی کریں تو ملک کوعوامی لیڈر کے قبضے میں جانے سے روکنے کیلیے فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا حکم دیا جا سکے۔ اس کی تازہ مثال نائجیریا اور مصر کے حالات ہیں۔ نائجیریا میں جب اسلام پسندوں نے انتخاب جیت کر حکومت بنانےکی کوشش کی تو فوج کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ اسی طرح حسنی مبارک کو ہٹا کر فوج اقتدار میں‌آگئی ہے۔
اگلی پوسٹ میں ہم یہ دیکھیں گے کہ ملک پر قبضہ برقرار رکھنے کیلیے قابضین مفتوح ملک کے سیاستدانوں کی بجائے فوج کو کیوں اولیت دیتے ہیں؟