کل بدنام ڈاکو اسلم بسا کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔ یہ وہی اسلم بسا ہے جس کا راج تب تک جاری رہا جب تک سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس کی گرفتاری کیلئے پولیس کو دس دن کا وقت نہ دے دیا۔ پولیس کی پھرتیاں کام آئیں اور اسلم بسا کو دس دن کے اندرگرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد اس کےساتھ کیا ہوا کسی کو کل تک معلوم نہیں تھا۔ اب کل کی خبر سے یہ بات کھلی کہ وہ ایک دن قبل پولیس کی آنکھوں میں مرچیں ڈال کر بھاگا اور اگلے دن پولیس اینکاؤنٹر میں اپنے دوساتھیوں سمیت مارا گیا۔ اخباری اطلاع کے مطابق یہ ایک مبینہ یعنی خودساختہ پولیس مقابلہ تھا۔

 اس طرح کے پولیس اینکاؤنٹر پاکستان کی آزادی سے قبل برطانوی راج نے متعارف کروائے۔ اس وقت گورے محب وطن لوگوں کو راستے سے ہٹانے کیلیے اس طرح کے پولیس مقابلے کرایا کرتے تھے۔ گوروں کے جانے کے بعد نہ ہماری پولیس کی تربیت کا نظام بدلا اور نہ ہی اس کا مزاج۔ آج بھی پولیس ایک خادم کی بجائے عوام کیلیے ایک ایسا بھینسا ہے جو جس کھیت میں چاہے چارہ کھائے اسے کوئی روک ٹوک نہیں۔

ہمیں بھی اسی طرح کا ایک اینکاؤنٹر یاد ہے۔ ہمارے محلے میں ایک چھوٹا بدمعاش لکڑی کا ٹال چلاتا تھا۔ اس نے کسی طرح ایک مڈل سکول کی لڑکی سے تعلقات قائم کرلیے اور ایک دن اسے بھگا کر لے گیا۔ کئ سال تک اس کی کوئی خبر نہ ملی۔ ایک دن اچانک پتہ چلا کہ اسے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اور اس کیساتھ بھاگنے والی لڑکی جو اب دو بچوں کی ماں بن چکی تھی واپس اپنے ماں باپ کے پاس آچکی ہے۔ ابھی یہ خبر سنے چند دن نہیں ہوئے تھے کہ ایک دن پتہ چلا کہ اسے پولیس مقابلے ميں ہلاک کردیا گیا ہے۔

یہ بات بھی ابھی پرانی نہیں ہوئی جب ہم نے دیکھا کہ پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا جو بچوں کو تیزاب میں ڈال کر ہلاک کردیا کرتا تھا۔ اس کے گھر سے تیزاب کے کنستر اور بچوں کی ہڈیاں اور کپڑے بھی برآمد ہوئے۔ ابھی اسے گرفتار ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ ایک دن خبر آئی کہ اس نے حوالات میں خود کشی کرلی ہے۔

یہ کاروائی پولیس تب کرتی ہے جب وہ سمجھتی ہے کہ ملکی قانون مجرم کو سزا دینے میں بہت دیر لگا دے گا۔ اسلیے ہماری مستعد پولیس اوپر والوں کی آشیرباد سے قانون کو اسی طرح ہاتھ میں لے لیتی ہے جس طرح جامعہ خفصہ کی طالبات نے ابھی چند دن قانون ہاتھ میں لیکر ایک مشتبہ کوٹھے والی آنٹی شمیم کو سزا دینے کی کوشش کی۔  پولیس کا اسطرح قانون میں ہاتھ لینا نہ سپریم کورٹ کو برا لگتا ہے اور نہ اس میڈیا کو جس نے جامعہ حفصہ کے حادثے پر واویلہ مچا کر آسمان سر پر کھڑا کرلیا۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو بدکاری کا اڈہ چلانے والوں اور ڈاکوؤں میں کوئی فرق نہیں بلکہ یہ لوگ تو ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ ہماری انتظامیہ اور آزاد خیال ميڈیا ایک بدکاری کا اڈہ چلانے والے پر ہونے والے ظلم کیخلاف احتجاج کرتے ہیں مگر ایک ڈاکو کی ہلاکت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔  کیا اسلم بسا کو ہلاک کرنے والوں کیخلاف سپریم کورٹ کو سو موٹو ایکشن نہیں لینا چاہیے سپریم کورٹ اگر چاہے تو جدید ٹیکنالوجی کے استفادے سے دنوں میں معلوم کرسکتی ہے کہ یہ پولیس مقابلہ اصلی تھا یا خود ساختہ۔

ہمارا پختہ یقین ہے کہ قانون توڑنے کا آغاز سب سے پہلے حکومتی ادارے کرتے ہیں اور پھر ان کی دیکھا دیکھی لوگوں کو بھی شہ ملتی ہے کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیں اور معاشرے میں پنپنے والی برائی کو خود روکیں۔ اگر حکومت جس کو چاہے اٹھا کر غائب کرسکتی ہے تو پھر وہ لوگوں سے بھی توقع کرے کہ وہ مشتبہ افراد کو ان کے گھروں سے اٹھا سکتے ہیں۔ اگر پولیس اینکاؤنٹر میں مجرموں کو ہلاک کرسکتی ہے تو پھر لوگ بھی بدکاروں کو بدکاری سے روکنے کیلیے قانون کو ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔

ہمیں معلوم ہے کہ ہماری اکثریت نے اسلم بسا کی ہلاکت پر سکون کا سانس لیا ہوگا اور ہمیں پولیس کی اس قانون شکنی پر خوشی ہوئی ہوگی۔ مگر ہم نے یہ نہیں سوچا کہ ایک مجرم کو اس کا جرم ثابت کیے بغیر ہلاک کردیا گیا۔ اسے قانونی امداد فراہم کیے بغیر کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا۔ اگر ہم آنٹی شمیم کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں تو پھر اسلم بسا کو کیوں نہیں؟