جو بيروني سرمايہ کاري ہے
نوآبادياتي نظام کي تياري ہے
بيچنا اغيار کو قومي صنعتيں
نج کاري نہيں يہ غدّاري  ہے
۔۔۔۔

وزير نج کاري حفيظ شيخ نے کہا ہے کہ حکومت کے پچھلے دوسال ميں نج کاري سے حکومت کو 240 ارب روپے حاصل ہوۓ
جن ميں سے نوے فيصد غير ملکي قرضوںکي مد ميں ادا کر ديۓگۓ اور دس فيصد جو صرف 24 ارب ہيں غربت دور کرنے پر خرچ کۓ گۓ۔اس رقم سے کتني غربت کم ہوئي کسي کو نظر نہيں آئي۔
دوسري طرف ڈاکڑ شاہد حسن صدّيقي کي رپورٹ پڑھيں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتےہيں۔ ڈاکڑ صاحب فرماتے ہيں کہ موجودہ حکومت جس معاشي ترقي کي بات کر رہي ہے وہ صرف نجي اخراجات ميں اضافہ کي وجہ سے ہے۔حکومت اگر نئ صنعتيں لگاتي يا موجودہ صنعتوں کي پيداواري صلاحيّت بڑہاتي تو عام عادمي کو فائدہ ہوتا۔
نج کاري کے نام پر منفعت بخش ادارے غيرملکيوں کے ہاتھوں فروخت کۓ جا رہے ہيں۔ اس طرح نوآبادياتي نظام کي واپسي کي راہ ہموار کي جارہي ہے۔ وہ وقت دور نہيں جب پاکستان کے سارے فنانشل ادارے ، پٹروليم اور کميونيکيشن غير ملکيوں کے ہاتھون ميں چلے جائيں گے۔ اس طرح ان اداروں سے ہونے والا منافع باہر منتقل ہونے لگے گا اور پاکستان ميں غربت بڑھے گي۔ اس کے مقابلے ميں بھارت نے نج کاري کاسلسلہ آہستہ کر ديا ہے اور وہاں پر نئ ٹيکنالوجي درآمد کي جارہي ہے۔
نج کاري اگر کرني ہي تھي تو پھر پاکستان کے اندر ہي کي جاتي اور غيرملکي کمپنيوں کو اس سے دور رکھا جاتا تاکہ زرِمبدلہ پاکستان کے اندر ہي رہتا۔
ايک اور بات جو تکليف دہ ہے وہ يہ ہےکہ حکومت اپنے غيرملکي آقاؤں کے کہنے پر ہر بجٹ ميں درآمدات پر ڈيوٹي کم کرتي جا رہي ہے جس سے پاکستان کا تجارتي خصارہ بڑہتا جا رہا ہے اور اس طرح غير ملکي قرضوں کي ادائيگي مشکل ہوتي جارہي ہے۔
مزے کي بات يہ ہے کہ اتني ترقي دکھانے کے بعد غير ملکي قرضوں ميں موجودہ حکومت کے دور ميں اضافہ ہي ہوا ہے کمي نہيں ہوئي۔ حالانکہ حکومت يہي شور مچا مچا کر لوگوں کو بيوقوف بنا رہي ہے کہ اب ہم غيرملکي قرض نہيں لے رہے۔