جارح طاقتیں دوسرے ملکوں پر جہاں سیاستدان حکمرانوں کے ذریعے قبضہ کئے رکھتی ہیں وہیں مشکل وقت کیلیے انہی ممالک کی افواج کو بیک اپ کیلیے استعمال کرتی ہیں۔ جب بھی مقبوضہ ملک کے جمہوری حکمرانوں کی تھوڑی سی بھی قومیت جاگتی ہے یا وہ زیادہ ہی خود غرض ہو جاتے ہیں یا جارح ملک کیلیے ناکارہ ہو جاتے ہیں یا پھر وہ عوام میں غیرمقبول ہو جاتے ہیں اور جارح ممالک کو انقلاب کی بو آنے لگتی ہے تب وہ ان کی حکومت ختم کرنے کیلیے اسی ملک کی فوج کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ یہ طریقہ صرف اور صرف اسلیے استعمال کرتے ہیں تا کہ حزب اختلاف جو جارح ممالک کی پالیسیوں کے خلاف ہوتی ہے وہ انتخابات جیت کر اقتدار پر قبضہ نہ کر لے۔

اب سوال یہ ہے کہ انقلاب کو روکنے کیلیے فوج کیوں انتہائی آزمودہ ہتھیار ہے؟ دراصل فوج ایک مضبوط ادارہ ہوتا ہے، اس کے پاس اسلحہ ہوتا ہے۔ سیاستدان اور عوام نہتے ہوتے ہیں۔ فوج میں ڈکٹیٹرشپ ایک حد تک ہوتی ہے اور اس کا سربراہ کچھ عرصے بعد بدلتا رہتا ہے۔ فوج کی اعلی قیادت کی پرورش جارح ممالک کے ہاں ہوتی ہے۔ اعلی فوجی قیادت نہ تو پڑھی لکھی ہوتی ہے اور نہ ہی اسے حکومت کرنے کا تجربہ ہوتا ہے۔ ان کی جاہلیت اور ناتجربہ کاری قابض ممالک کیلیے بہت بڑا اثاںہ ہوتی ہے۔ اس فوجی قیادت کو بڑی آسانی سے ڈرا دھمکا کر، بہلا پھسلا کر فابض ممالک اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ہم اپنے موقف کی تائید کیلیے ہمارے دور کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ الجزائر میں جب اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھنے کیلیے حزب اختلاف نے انتخابات جیتے تو فوج نے ملک پر قبضہ کر لیا۔ مصر میں حسنی مبارک کو ہٹا کر فوج کو مسلط کر دیا گیا۔ پاکستان میں کئی دفعہ فوجی حکومت اسی وجہ سے آئی۔ بنگلہ دیش میں بھی فوج کو مسلط کیا گیا۔ ترکی، کا بھی یہی حال ہے۔