پچھلے چند روز سے ہم طویل بحثوں کے مزے لے رہے ہیں۔ ان میں حصہ لینے والے شروع میں دوچار لوگ ہی تھے مگر چند لوگوں کے مزید شامل ہوجانے سے بحث میں جان پڑ گئ ہے۔

اردو سیارہ سمیت ہمارے اکثر بلاگرز نے اپنے اپنے بلاگز پر اپنے پڑھنے والوں اور پھر بحث میں حصہ لینے والے اصحاب کو بار بار یہی تلقین کی ہے کہ بحث کو شخصی تنقید سے پاک رکھیے اور لغو زبان استعمال مت کیجئے۔ ہمارے خیال میں یہی دوباتیں تعمیری بحث کی جان ہوتی ہیں۔

کہتے ہیں عام قسم کے لوگ شخصیات پر بحث کرتےہیں، درمیانے ذہن والے لوگ واقعات پر بحث کرتے ہیں اور ذہین لوگ خیالات پر بحث کرتے ہیں۔ ہم نے بھی ابھی تک یہی دیکھا اور سیکھا ہے کہ اگر خیالات پر بحث کی جائے تو یہ تعمیری ہوتی ہے اور اس سے قاری زیادہ سیکھتا ہے۔ دوسری طرف جب ہم دوسروں کی ذات پر کیچڑ اچھال کر ایک عام آدمی ہونے کا ثبوت دیتے ہیں وہیں پر اس کیچڑ سے ہم خود بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔ مثلاً آپ نے کسی کو جھوٹا فریبی مکار غدار یا غاصب کہا تو وہ آپ پر جواب میں پھول نچھاور نہیں کرے گا بشرطیکہ وہ سلجھا ہوا آدمی ہو اور اس نے اپنی توجہ خیالات پر ہی مرکوز رکھی ہو۔

اگر آپ کے نقطہ نظر سے کسی کو اختلاف ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس کی ایسی کی تیسی کردیں۔ بلکہ راشد صاحب کے بقول اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑ دیں۔ یہ بات یاد رہے کہ ہم کوئی بھی تبصرہ اپنی سائٹ سے حذف نہیں کررہے تاکہ پڑھنے والے کو آپ کے برے الفاظ کے استعمال سے آپ کے ذہنی معیار سے آگاہی ہوسکے اور شاید آپ کو بھی ان گندے فقروں کے استعمال پر کبھی ندامت ہو۔ ہاں جب کبھی کسی نے ننگی گالی دی ہو تو وہ ہم ہٹا دیتے ہیں۔

ہم اپنی بات لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو کہنا تھا وہ کہ دیا اسلیے بار بار بحث میں مخل نہیں ہوتے۔ کبھی کبھار جب بحث شخصیات پر تنقید کی طرف بڑھنے لگے تو پھر کوشش کرتے ہیں کہ اپنے قارئین کو اس سے پرہیز کی یاد دہانی کرا دیں۔ ہم اس آدمی کی شخصیت سے بہت متاثر ہوتے ہیں جو شخصی تنقید کو برداشت کرتا ہے اور اس کے جواب میں صرف اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شخصی تنقید کو برداشت کرنا آسان کام نہیں ہے بلکہ اسکیلے بہت بڑا دل چاہیے۔

مباحثے میں شریک اچھے شرکا وہی مانے جائیں گے جو صرف اپنے پوائنٹ کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے اور دوسرے کی اگلی پچھلی نسلوں پر لعن طعن نہیں کریں گے۔ یقین مانیں آپ کی یہی خوبی آپ کی شخصیت کو نکھا رے گی اور آئندہ دوسرے لوگوں سے الجھنے کی تکلیف سے بھی بچائے گی۔

آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آپس میں اختلافات کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے۔ اگر نہیں تو ہم بتائے دیتے ہیں۔ یہ ایک تو غیبت اور دوسری شخصی تنقید یا مذاق ہے۔ آپ اپنے جاننے والے یا رشتے دار کی غیبت کرکے دیکھ لیں جونہی وہ بات اس تک پہنچے گی آپ کی لڑائی شروع ہوجائےگی اور آپ ایک دوسرے سے بات کرنے سے بھی جائیں گے۔ اسی طرح آپ نے کسی کی شخصیت کا اس کے سامنے مذاق کیا نہیں اور آپ کی شامت آئی نہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں ایک اصول پر کارآمد رہ کر کئ مواقع پر اپنی عزت بچائی ہے۔ وہ اصول ہے منہ پھٹ کو منہ نہ لگانا۔ آپ آزما کر دیکھ لیں آپ کسی منہ پھٹ اور بےشرم کیساتھ مذاق کرکے دیکھ لیں وہ آپ کو بھرے مجمعے میں ذلیل نہ کردے تو ہم جھوٹے۔

ایک دوسرے پر جانبداری اور میں نہ مانوں والے الزامات بھی آپ کے دلائل کو کمزور کردیتے ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ بحث کرنے والا آپ سے متفق نہیں ہے تو اسے کچھ نہ کہیے بلکہ فیصلہ دوسروں پر چھوڑ دیجیے۔ یہی آپ کی بردباری اور ذہانت کی کنجی ہوگی۔

ایک اور بات جو سب سے اہم ہے وہ ہے کسی انجان آدمی کی بحث کے دوران جلا کٹا جملہ کہ کر آپ کو مشتعل کرنے کی کوشش۔ اس کا بہتر حل یہی ہے کہ اس طرح کی کوشش کو ناکام کرنے کیلیے اس کو درگزر کیجئے۔ لیکن اس کیلیے بھی شرط یہ ہے کہ آپ بہت ٹھنڈے مزاج کے واقع ہوئے ہوں اور آپ کے مزاج میں چڑچڑا پن نہ ہو۔ ہمیں یاد ہے ہمارے محلے میں دو بوڑھوں کی چھیڑ بنی ہوئی تھی۔ ایک بوڑھی عورت اپنی عمر سے بڑھ کر چمکیلا لباس زیب تن کیے رکھتی تھی۔ لوگ جب اسے مائی کبوتری کہ کر پکارتے تو وہ بہت دیر تک چھیڑنے والوں کو لعن طعن کرتی رہتی جب تک تھک نہ جاتی۔ وہ جونہی چپ ہوتی کہیں اور سے آواز آجاتی “مائی کبوتری” اور وہ پھر گالی گلوچ شروع کردیتی۔ اسی طرح ایک بوڑھا جو اپنی “کھوتی” پر جانوروں کا چارہ بازار سے لایا کرتا تھا لوگ اس سے جونہی پوچھتے “بابا کھوتی سوئی آ” یعنی تمہاری گدھی نے بچہ جنا کہ نہیں تو وہ کھوتی کو ادھر ہی چھوڑ کر لڑکوں کو مارنے کیلیے ان کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتا۔ اس دوران دوسرے شرارتی لڑکے اس کی کھوتی پر سواری شروع کردیتے۔ ان مثالوں سے ہميں یہی ثابت کرنا ہے کہ چھیڑنے والے کو پہچانیے اور اس کی باتوں ميں آکر نہ اپنا وقت ضائع کیجے اور نہ دماغ۔

ایک اور اصول جس نے ہمیں مصیبتوں سے بچائے رکھا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو کوئی تنگ کررہا ہے اور آپ کا دل کرتا ہے کہ آپ اس سے الجھ پڑیں۔ اس موقع پر کوشش کیجیے کہ ایک ڈرپوک کی طرح اس سے دامن بچا کر چلے جایۓ۔ آپ دیکھیے گا کہ کبھی نہ کبھی وہ کسی اور کے ساتھ الجھے گا اور دوسرا شخص اس کو سبق سکھا کر آپ کی حسرت بھی پوری کردے گا۔

اس ساری انصحیتوں سے بھری بور گفتگو کا لب لباب یہی ہے کہ براہ مہربانی ایک پڑھا لکھا، سلجھا ہوا اور ذہین آدمی بن کر بحث میں حصہ لیجئے اور فضول باتوں سے اپنے دل کو جلانے سے بچئے۔

اگر آپ کے ذہن میں کوئی نصیحت ہو تو ہمیں کیجیے اس طرح ہوسکتا ہے ہم بھی اپنی ان غلطیوں سے آگاہ ہوسکیں جو اب تک ہم سے پوشیدہ ہیں۔