ان کے ناکام ترین دور حکومت ہونے کی صرف اور صرف یہی مثال کافی ہے کہ ان کے دور میں ملک دو گنا مقروض ہو گیا۔ یعنی جتنے قرضے پاکستان نے اپنی ساٹھ سالہ تاریخ میں لیے تھے اتنے قرضے صدر زرداری نے اپنے پہلے تین سالہ دور میں لے لیے۔ یہ قرضے کہاں گئے اسکیلیے ان کا مسٹر ٹین پرسینٹ کا خطاب ہی ثبوت کیلیے کافی ہے۔

صدر زرداری جو بی اے پاس بھی نہیں ہیں اور جنہیں ان کی بیگم نے اپنے آخری دنوں میں کھڈے لائن لگا دیا تھا کی قسمت ایسے جاگی کہ دبئی میں گمنام زندگی گزارنے والے ایکدم بڑے لیڈر بن کر ملک کی قسمت کے مالک بن بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ بینظیر کی شہادت میں ان کے ملوث ہونے کا گمان کرتے ہیں۔

صدر آصف علی زرداری نے مطلق العنان اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کی طرح صدارت کے عہدے کو سیاسی عہدے میں گڈمڈ کر دیا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے اجلاس ایوان صدر میں بلا کر صدر کے عہدے کی غیرجانبدار حیثیت کو خاک میں ملا دیا۔

جس طرح بیکار سجادہ نشین اپنے مرحوم بزرگوں کے مزارات سے فائدے اٹھاتے ہیں اسی طرح صدر زرداری نے بھٹو خاندان کے مرحوم  سیاسی لیڈروں کی طلسماتی شخصیات کو استعمال کر کے پی پی پی کے کارکنوں کی ہمدردیاں حاصل کیں۔ اپنے سینما کے باہر ٹکٹیں بلیک کرنے والا آج ملک کو تباہی کی دھکیل رہا ہے اور انہیں کوئی بھی روکنے والا نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پاکستان کی لنکا کو ڈوبتے دیکھ رہے ہیں۔

عمران خان نے ٹھیک کہا ہے کہ صدر زرداری کو دوسروں کی کمزرویوں سے فائدہ اٹھانا آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ازلی دشمنوں کو بھی گلے ملنے پر مجبور کر چکے ہیں۔ اس وقت جو بھی سیاسی جماعتیں ان کیساتھ حکومت میں شامل ہیں وہ ملک کی معاشی حالت کی تباہی کی برابر کی ذمہ دار ہیں۔ سیدھی سی بات ہے چور کا ساتھی بھی چور ہی ہوتا ہے۔

اگر صدر زرداری کو دوبارہ پانچ سال کیلیے ملک کا صدر بنا دیا گیا تو ملکی قرضوں کی تعداد چار گناہ ہو جائے گی کیونکہ ان کا پیٹ کبھی بھرنے والا نہیں۔ لالچی حکمران جہاں عوام کا خون چوستے ہِیں وہاں وہ ملک کا سودا کرتے ہوئے بھی نہیں ڈرتے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ جلد سے جلد پاکستان کو ان سے نجات دلائے۔